جواب:
نگہبانِ رسالت جنابِ ابوطالب‘ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے‘ کتبِ تاریخ و حدیث میں ان کی بت پرستی کی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔ آپ کی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کیا‘ آپ کے صاحبزادے سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کم عمری میں اسلام قبول کیا مگر جنابِ ابوطالب نے نہ انکو روکا اور نہ احکامِ اسلام کی بجا آوری پر ان کو کوئی تکلیف دی۔ سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات اور خصائل و شمائل پر جنابِ ابوطالب کے اشعار ان کے ایمان پر سند ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمومی اعلان کے بعد بھی جنابِ ابوطالب کے دستر خوان پر کھانا کھاتے حالانکہ اعلانیہ تبلیغ کے بعد آپ نے کسی مشرک و کافر کے ساتھ کھانا تناول نہیں فرمایا۔ جنابِ ابوطالب نے دشمنان اسلام کے خلاف ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی یہاں تک کہ شعبِ ابی طالب کے ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں کو سلاتے تاکہ قریش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکیں‘ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی۔
جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ جنابِ ابو طالب کی حیات، رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے لیے آپ كى عظيم قربانيوں اور تحفظِ اسلام کے لیے آپ کے اخلاص، جاں نثاری اور فداكاری کا مطالعہ کرے‘ وہ کہنے پر مجبور ہو جائے گا کہ یہ سیرت، یہ قربانیاں اور یہ جذبات کسی غیرمؤمن کے نہیں ہوسکتے۔ ایمانِ ابو طالب کے مزید دلائل جاننے کے لیے شیخ اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا درج ذیل خطاب ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔