کیا خصی ہونا قربانی کے جانور کا عیب ہے؟


سوال نمبر:5119

السلام علیکم مفتی صاحب! کیا خصی جانور کی قربانی ہو جاتی ہے؟ جبکہ قربانی والا جانور تو بے عیب ہونا چاہیے۔

  • سائل: شکور عالممقام: گجرات
  • تاریخ اشاعت: 23 اکتوبر 2018ء

زمرہ: قربانی کے احکام و مسائل

جواب:

حدیث مبارکہ میں حضرت عبید بن فیروز رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کون سے جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے؟ تو حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جبکہ میری انگلیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے اور میرے پورے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پوروں سے حقیر ہیں۔ آپ نے چار انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قربانی میں چار قسم کے جانور درست نہیں ہیں:

الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى. قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ. قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.

ایک تو کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو، دوسرا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو، تیسرا لنگڑا جس کا لنگڑانا ظاہر ہو اور چوتھا وہ بوڑھا جانور جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو۔ میں عرض گزار ہوا کہ جس کی عمر کم ہو یا جس کے دانت میں نقص ہو مجھے وہ بھی ناپسند ہے۔ فرمایا جو تمہیں ناپسند ہو اسے چھوڑ دو لیکن دوسروں کے لئے حرام نہ ٹھہراؤ۔

أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، 3: 97، رقم: 2802، بيروت: درا الفكر

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے:

أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم هَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الْأُذُنِ وَالْقَرْنِ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے جس کا کان کٹا ہوا یا سینگ ٹوٹا ہوا ہو۔

أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، 3: 98، رقم: 2805

اور فقہاء کرام نے مزید وضاحت بیان کی ہے:

كُلُّ عَيْبٍ يُزِيلُ الْمَنْفَعَةَ عَلَى الْكَمَالِ أَوْ الْجَمَالِ عَلَى الْكَمَالِ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ، وَمَا لَا يَكُونُ بِهَذِهِ الصِّفَةِ لَا يَمْنَعُ، ثُمَّ كُلُّ عَيْبٍ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ فَفِي حَقِّ الْمُوسِرِ يَسْتَوِي أَنْ يَشْتَرِيَهَا كَذَلِكَ أَوْ يَشْتَرِيَهَا وَهِيَ سَلِيمَةٌ فَصَارَتْ مَعِيبَةً بِذَلِكَ الْعَيْبِ لَا تَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ.

ہر ایسا عیب جو فائدہ مکمل طور پر ختم کر دے یا خوبصورتی مکمل طور پر ختم کر دے، قربانی کو ناجائز کر دے گا۔ اور جو عیب ایسا نہیں وہ قربانی کے جواز کا مانع نہ ہو گا۔ پھر ہر عیب جو امیر آدمی کے حق میں قربانی کا مانع ہو، برابر ہے کہ اس نے جانور ویسا ہی خریدا تھا یا خریدتے وقت عیب سے پاک تھا، پھر اس عیب سے عیب دار ہو گیا، اس کی قربانی کسی طور جائز نہیں۔ اور غریب آدمی کے لئے ہر صورت میں قربانی جائز ہے۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 5: 299، بيروت: دارالفكر

درجہ بالا احادیث مبارکہ اور فقہاء کرام کے موقف سے معلوم ہوا کہ جن عیوب کی وجہ سے جانور قربانی کے لیے ممنوع ٹھہرتا ہے، اُن میں جانور کا خصی ہونا شامل نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قربانی تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» ثُمَّ ذَبَحَ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے روز سینگوں والے، چتکبرے اور خصی دو مینڈھے ذبح فرمائے۔ جب انہیں قبلہ رو کیا تو کہا: بیشک میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ یہ کام حضرت ابراہیم کے طریقے پر ہے، ایک خدا کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں سے ہوں۔ اے اﷲ یہ تیری طرف سے اور تیرے لئے ہے، محمد اور اس کی امت کی جانب سے اﷲ کے نام سے شروع اور اﷲ بہت بڑا ہے پھر ذبح فرمایا۔

نوٹ: (یہ الفاظِ حدیث سنن ابو داود سے لئے گئے ہیں اور یہی حدیث مبارکہ کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے)

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 220، رقم: 25885، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبو داود، السنن، كتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3: 95، رقم: 2795، دار الفکر
  3. ابن ماجه، السنن، كتاب الأضاحي، باب أضاحي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ، 2: 1043، رقم: 3122، بیروت: دار الفکر

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَيَجُوزُ الْمَجْبُوبُ الْعَاجِزُ عن الْجِمَاعِ وَاَلَّتِي بها السُّعَالُ وَالْعَاجِزَةُ عن الْوِلَادَةِ لِكِبَرِ سِنِّهَا.

اور جس جانور کا آلہ وخصیہ کٹا ہو، جماع سے عاجز ہو یا کھانسی ہو، ان کی قربانی جائز ہے۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 5: 298

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے ثابت ہوا کہ جانور کا خصی ہونا قربانی کے لیے عیب شمار نہیں ہوتا اور خصی جانور قربان کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری