اسلام میں‌ یتیم پوتے کی وراثت بارے کیا احکام ہیں؟


سوال نمبر:5110
السلام علیکم! یتیم پوتے کی وراثت کے بارے میں راہنمائی کر دیں۔ شکریہ

  • سائل: سید ابوبکرمقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 23 اکتوبر 2018ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

میت کی مذکر اولاد کی موجودگی میں اس کا یتیم پوتا بحیثیتِ وارث حصہ نہیں پاتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تقسیمِ وراثت کے شریعی احکام کی بنیاد ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ اس اصول کی بناء پر یہ قانون طے کیا گیا ہے کہ اصحاب الفرائض (جن کے حصے قرآن و حدیث نے مقرر کر دیے ہیں) کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی اموالِ وراثت میت کے قریب ترین رشتہ دار کو بطور عصبہ مل جائے گا۔ میت کے ساتھ اس کے پوتے کی رشتہ داری اپنے باپ کے واسطے سے ہے جبکہ اس کی اپنی اولاد بلاواسطہ رشتہ دار ہے‘ اس لیے میت کے بیٹے کی موجودگی میں اس کی بیٹیاں اور بیٹے عصبہ بنیں گے اور وراثت کے اصولی مستحق ہوں گے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولی رجل ذکر.

اصحاب الفرائض کو ان کا حق دینے کے بعد جو باقی بچے وہ قریبی ترین مرد وارث کے لیے ہے۔

(صحیح البخاري، 2: 997)

اس اصول کی بنا پر ہی اگر میت کی وفات کے وقت اس کی کوئی مذکر اولاد زندہ نہیں ہے صرف بیٹیاں اور پوتا ہے تو بیٹیوں کو حصہ دینے کے بعد پوتا بطور عصہ دادا کی وراثت سے حصہ پائے گا‘ کیونکہ اس صورت میں یہ قریبی ترین مرد رشتہ دار ہے۔ اسی طرح شریعت نے وصیت کا قانون بھی متعارف کروا رکھا ہے‘ اس کی رو سے اگر کسی شخص کو خدشہ ہو کہ اس کی اولاد اس کے یتیم پوتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی تو وہ اپنی زندگی میں ان کے لیے جتنی چاہے جائیداد ہبہ کر سکتا ہے یا ان کے حق میں اموالِ وراثت سے ایک تہائی مال تک کی وصیت کر سکتا ہے۔ ہمارے فقہاء کے نزدیک بعض حالات میں پوتے کے لیے وصیت کرنا مستحب اور بعض اوقات واجب بھی ہو جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کا نظام ِوراثت بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے اصولوں کے مطابق اگر یتیم پوتے کو بیٹوں کے ساتھ بطور وارث حصہ نہیں دیا گیا ہے تو وقت ِضرورت اس کی حاجت راوائی اور کفالت کے دیگر پختہ انتطامات کیے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری