جواب:
اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق بیٹوں کی موجودگی میں دادا کی وراثت سے یتیم پوتے اور پوتیاں براہ راست حصہ نہیں پاتے، کیونکہ بیٹا اَقرب اور پوتا اَبعد رشتہ دار ہے۔ قرآنِ مجید کی رو سے قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں بعید کے رشتہ دار کو حصہ نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا.
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
النساء، 4: 7
البتہ دادا اپنی زندگی میں یتیم پوتوں کے لیے جتنا مال چاہے ہبہ کر سکتا ہے یا وراثت میں سے ان کے لیے وصیت کر سکتا ہے مگر وصیت کل وراثت کا ایک تہائی سے زائد نہیں ہوسکتی۔ اگر دادا اپنی زندگی میں کسی پوتے یا پوتی کے لیے کچھ ہبہ کر دے تو یہ ہبہ کردہ اموال ترکہ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ ترکہ یا وراثت وہی ہوتی ہے جو کسی شخص کی وفات کے وقت اس کے نام پر یا اس کی ملکیت میں ہو۔ اس کی مزید وضاحت ’کیا ہبہ شدہ جائیداد بھی ترکہ میں تقسیم ہوتی ہے؟‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مسئلہ ہٰذا میں آپ کے دادا کی وفات کے وقت اگر اُن کی بیوی زندہ ہے تو آٹھواں حصہ پائے گی اور باقی سب اُن کے بیٹوں اور بیٹوں یعنی آپ کے چچا (سوتیلے والد) اور آپ کی پھوپھیوں میں دو ایک (2:1) کے تناسب سے تقسیم ہو جائے گا‘ یعنی ہر بیٹی کو ایک اور بیٹے کو دو حصے ملیں گے۔ اگر آپ کی دادی حیات نہیں اور کوئی پھوپھی بھی نہیں ہے تو دادا کا تمام ترکہ ان کے بیٹے کو ملے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ..
میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچ جائے وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔
اس لیے آپ کے دادا کا ترکہ آپ کے چچا (سوتیلے والد) کو ملے گا۔ آپ دونوں بہن بھائی اور آپ کی سوتیلی بہن دادا کی وراثت سے براہِ راست حصہ نہیں پائیں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔