نمازی قعدہ اولیٰ بھول کر قیام کے قریب پہنچ جائے تو عدول کر سکتا ہے؟


سوال نمبر:5079
السلام علیکم! ظہر کی جماعت کرواتے امام صاحب قعدہ اولیٰ میں بیٹھنے کی بجائے اٹھے مگر ابھی رکوع سے کم ہی کھڑے ہوئے تو انہیں یاد آگیا اور بیٹھ گئے اور پھر بغیر سجدہ سہو کے نماز مکمل کر لی۔ کیا نماز ہو گئی؟ اس کی بھی وضاحت کر دیں کہ امام بھول کر دوسے رکن میں‌ چلا جائے تو کتنا جانے سے سجدہ سہو ہوتا ہے؟ جیسے اس مسئلے میں‌ وہ رکوع سے زیادہ نہیں‌ اٹھے تو کتنا اٹھنے سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے؟

  • سائل: حافظ فرقان اعوانمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 12 اکتوبر 2018ء

زمرہ: نماز کے واجبات

جواب:

اگر دوسری رکعت میں نمازی قعدہ اولیٰ کیے بغیر بھول کر اٹھنے لگا مگر ابھی گھٹنے زمین سے نہ اٹھائے تھے کہ یاد آ گیا اور واپس بیٹھ گیا تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوا۔ اگر اس کے گھٹنے زمین سے اٹھ گئے تھے مگر قعدہ (بیٹھنے) کے قریب تھا یاد آنے پر لوٹ آیا تو بھی سجدہ سہو واجب ہوگا، اگر قیام کے قریب تھا تو قعدہ کی طرف واپس نہ لوٹے بلکہ قیام مکمل کرے اور قعدہ اخیرہ میں سجدہ سہو کرے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا قَامَ الْإِمَامُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، فَإِنْ ذَكَرَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوِيَ قَائِمًا فَلْيَجْلِسْ، فَإِنِ اسْتَوَى قَائِمًا فَلَا يَجْلِسْ، وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ.

اگر امام دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اگر یاد آجائے تو بیٹھ جائے اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا تو نہ بیٹھے بلکہ سہو کے دو سجدے کرلے۔

أبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب من نسي أن يتشهد وهو جالس، 1: 272، رقم: 1036، بيروت: دار الفكر

صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:

وَمَنْ سَهَا عَنْ الْقَعْدَةِ الْأُولَى ثُمَّ تَذَكَّرَ وَهُوَ إلَى حَالَةِ الْقُعُودِ أَقْرَبُ عَادَ وَقَعَدَ وَتَشَهَّدَ لِأَنَّ مَا يَقْرُبُ مِنْ الشَّيْءِ يَأْخُذُ حُكْمَهُ، ثُمَّ قِيلَ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِلتَّأْخِيرِ. وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَسْجُدُ كَمَا إذَا لَمْ يَقُمْ وَلَوْ كَانَ إلَى الْقِيَامِ أَقْرَبَ لَمْ يَعُدْ لِأَنَّهُ كَالْقَائِمِ مَعْنًى،وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ.

اور جو شخص قعدہ اولیٰ بھول گیا پھر اسے اس حال میں یاد آیا کہ وہ حالت قعود سے زیادہ قریب ہے تو وہ شخص لوٹ جائے اور قعدہ کر کے تشہد پڑھ لے، اس لیے کہ جو چیز کسی چیز سے قریب ہوتی ہے وہ اس شئے کا حکم لے لیتی ہے، پھر ایک قول یہ ہے کہ تاخیر کی وجہ سے وہ شخص سجدہ سہو کرے اور اصح قول یہ ہے کہ وہ سجدہ سہو نہ کرے، جیسے اس صورت میں جب وہ کھڑا نہ ہو۔ اور اگر قیام سے زیادہ قریب ہو تو واپس نہ لوٹے، اس لیے کہ وہ شخص معناً قائم کی طرح ہے اور سجدہ سہو کرے، اس لیے کہ اس نے واجب کو ترک کر دیا ہے۔

مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 75، المكتبة الاسلامية

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نمازی جس رکن کے قریب ہو اس میں داخل ہوجائے مگر واجب کو ترک کرنے یا فرض میں تاخیر ہونے کی وجہ سے آخر پر سجدہ سہو کرلے۔ مسئلہ مذکورہ میں اگر امام صاحب نے گھٹنے زمین سے الگ ہونے کے بعدعدول کر کے قعدہ اولیٰ کیا تو اس پر سجدہ سہو لازم تھا‘ اگر نہیں کیا گیا تو نماز لوٹائی جائے گی۔ اگر گھٹنے زمین سے الگ ہونے سے پہلے یاد آنے پر فوراً بیٹھ گئے تھے تو نماز بلاسجدہ سہو درست ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری