جواب:
اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ دیگر مذاہب کے برعکس یہ ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے سے متعلق انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو معاشی معاملات کے متعلق بھی جامع تعلیمات دی ہیں اور جائز و ناجائز کی حدود واضح کی ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَی الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔
الْبَقَرَة، 2: 188
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا.
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
النِّسَآء، 4: 29
کوئی شخص تجارت میں دھوکہ دے یا غلط بیانی سے کام لے تو یہ نا جائز ہے، حدیث میں آتا ہے: ’’من غشنا فلیس منا.‘‘ یعنی جس نے ہمیں (مسلمانوں کو) دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ دوسری حدیث میں آیا ہے: ’’من باع معیباً فلم ینبہ عن عیبہ فلم یزل فی غضب اللّٰہ أولم تزل الملائکۃ تلعنہ‘‘ کسی نے اگر کوئی عیب دار چیز فروخت کی اور اس کی خریدارکو اس کا عیب نہ بتلایا تو وہ ہمیشہ اللہ کی غضب میں رہے گا یا اس پر فرشتے ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے۔
تجارت اور لین دین کے یہ بنیادی احکام بیان کرنے کے بعد اب سائل کے بیان کردہ معاملہ کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔ سائل نے جس طرح کا معاملہ بیان کیا ہے بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ کرنے والے افراد جعلی کمپنیاں بنا کر اور جھوٹ بول کر لوگوں سے پیسہ ہتھیا رہے ہیں اور انہیں جعلی ویزے جاری کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا شرعاً اور قانوناً جرم ہے۔ اس لیے پیش کردہ تمام معاملہ ناجائز ہے، اور اس سے حاصل ہونے والا مالی فائدہ حرام ہے۔ اس جرم کی سزا دنیا میں ملکی قانون کے مطابق اور آخرت میں اس گناہ کی سزا نارِ جہنّم ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔