نصابِ زکوٰۃ سونے کے اعتبار سے شمار ہوگا یا چاندی کے اعتبار سے؟


سوال نمبر:5000
السلام علیکم مفتی صاحب! میں سوال نمبر 4963 کی مزید وضاحت چاہتا ہوں۔ میں نے ایک مفتی صاحب سے سنا ہے کہ اگر چاندی کے نصاب کے برابر رقم ہو تو زکوٰۃ‌ اور قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ یہ نصاب تقریباً 40 ہزار بنتا ہے۔ دورِ حاضر میں سونے اور چاندی کی قیمت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ سونے کو نصاب بنایا جائے یا چاندی کو؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اگست 2017 میں صاحبِ‌ نصاب ہوا، پھر 10 مہینے صاحبِ نصاب نہ رہا اور اگست 2018 میں پھر صاحبِ نصاب ہو گیا تو کیا وہ زکوٰۃ ادا کرے گا؟ قربانی کے وجوب کا کیا نصاب ہے؟

  • سائل: اعجاز احمدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2018ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

دورِ حاضر میں سونے، مالِ تجارت اور نقدی کا نصاب ساڑھے سات تولے سونے کی بازاری قیمت کے اعتبار سے شمار کیا جائے گا۔ اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہے تو پھر ساڑھے باون تولے چاندی کے اعتبار سے نصابِ زکوٰۃ مقرر کیا جائے گا۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: نقد رقم پر زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے نصابِ‌ شرعی سونے کو شمار کیا جائے یا چاندی کو؟

وجوبِ زکوٰۃ کے لیے مکمل سال صاحبِ نصاب رہنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص سال کا کچھ حصہ صاحبِ نصاب رہنے کے بعد نصاب سے کم مال کا مالک ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ جیسے اگست 2017 میں صاحبِ نصاب ہوئے اور پھر دس ماہ نصاب سے کم مال کے مالک رہنے کے بعد اگست 2018 میں دوبارہ صاحبِ نصاب ہو گئے تو آپ کا سال اگست 2018 سے شمار ہوگا، پچھلے سال کی آپ پر زکوٰۃ نہیں ہے (نیز زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قمری کلینڈر کے حساب سے سال شمار کیا جائے گا)۔ قربانی کے وجوب کے لیے بھی زکوٰۃ کا نصاب ہی معیار ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ زکوٰۃ تب واجب ہوتی ہے اگر انسان پورا سال صاحبِ نصاب رہے لیکن قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایامِ قربانی (دس ذی الحج سے بارہ ذی الحج کی مغرب تک) صاحبِ نصاب ہو جائے تو قربانی واجب ہو جاتی ہے، اس کے لیے سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری