اگر کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ نقدی ہو تو نصابِ‌ زکوٰۃ کیسے شمار کیا جائے؟


سوال نمبر:4985
السلام علیکم! اگر ایک عورت کی کچھ ماہ پہلے شادی ہوئی اور اس کو 3 تولے سونا شادی کے وقت شوہر کی طرف سے دیا گیا اور 2 تولے اس کے والدین نے بھی اسے دیا۔ اور 3، 2 لاکھ کا سامان بھی والدین کی طرف سے ملا جس میں سے کافی ایسا سامان بھی ہے جو فی الحال استعمال میں نہیں آرہا، اُس پر زکواۃ اور قربانی کا کیا حکم ہو گا؟ ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد بھی سونا پاس رہے تو اُس صورت میں چاندی کے نصاب سے زکواۃ دینا ہو گی؟ اگر قربانی یا زکواۃ کے لیے رقم پاس نا ہو تو سونا یا سامان بیچ کے قربانی کرنی کی ہو گی؟ اور کیا شادی شدہ لڑکی اگر صاحب نصاب ہو مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو کیا وہ اپنی قربانی یا زکواۃ اپنےوالدین سے ادا کروا سکتی ہے؟

  • سائل: عدنان خانمقام: پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2018ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

روزمرہ کے کاموں‌ میں استعمال ہونے والے گھریلو سامان یا کبھی کبھار استعمال ہونے والے سامان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ سونا، مالِ‌ تجارت اور نقدی جب نصابِ شرعی کو پہنچیں اور ان پر ایک سال پورا گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

جب کسی شخص کے پاس کچھ سونا، کچھ مالِ‌ تجارت اور کچھ نقدی ہو تو سونے کے اعتبار سے نصابِ شرعی طے کیا جائے گا‘ یعنی جب تمام اموال کی مالیت ساڑھے سات تولے سونے کی بازاری قیمت کے برابر ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس صرف چاندی ہو تو پھر ساڑھے باون تولے چاندی کی بازاری قیمت کے مطابق اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ عمومی صورتحال میں‌ سونے کے اعتبار سے نصابِ شرعی مقرر کیا جائے کیونکہ آج کل سونا ہی کاغذی کرنسی کے پیچھے زرِ ضمانت کے طور پر مرکزی بینک میں محفوظ کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت صاحبِ نصاب ہو تو اس پر زکوٰۃ و قربانی واجب ہے‘ چاہے شوہر سے پیسے لیکر ادا کرے یا والدین سے لیکر دے یا پھر اپنی ملکیت میں‌ سے کوئی شے فروخت کر کے ادا کرے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری