اگر قسطوں پر اشیاء خریداری جائز ہے تو بینک سے قرضہ لینا ناجائز کیوں؟


سوال نمبر:4920
اگر قسطوں پر ہم اشیا لے سکتے ہیں تو کیا بینک سے قرضہ بھی لے سکتے ہیں؟ قسطوں میں بھی 10 روپے کی چیز کے 15 دینے پڑتے ہیں اور بینک میں چیز کی بجائے پسے مل جاتے ہیں تاکہ اپنی مرضی سے خریداری کر لیں۔ رہنمائی فرما دیں۔

  • سائل: راجہ رخسارمقام: گجرخان
  • تاریخ اشاعت: 25 جون 2018ء

زمرہ: سود  |  قسطوں پر خرید و فروخت

جواب:

قسطوں پر اشیاء خریدنا اور قرض پر سود دینا دو مختلف معاملے ہیں اور ان کے احکام بھی جدا ہیں۔

سود کو عربی زبان میں رِبا کہتے ہیں جس کے لفظی معنیٰ زیادتی کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جو کسی بغیر کسی مالی عوض کے حاصل ہو۔

سود کی دو بنیادی اقسام ہیں: ربا الفضل اور ربا النسئیہ

ربا الفضل سے مراد وہ اضافہ ہے جو ہم جنس (same commodity) چیزوں کے دست بدست تبادلے میں وصول کیا جائے۔ مثلاً ایک کلو گندم کے بدلے دو کلو گندم لینا، تولہ چاندی کے عوض دو تولہ چاندی لینا وغیرہ۔ جب ایک جنس کی شے کا تبادلہ اسی جنس سے زیادتی کے ساتھ وصول کیا گیا تو یہ سود ہوگا۔ اگر اشیائے تبادلہ مختلف جنس کی ہوں گی تو ان میں کمی و بیشی جائز ہے۔

ربا النسئیہ سے مراد وہ اضافہ ہے جو قرض پر لیا جائے۔ یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے جب قرض خواہ (قرض دینے والا) اس شرط پر قرض دے کہ مقروض (قرض لینے والا) اصل مال (راس المال) سے زیادہ واپس کرے گا، یا قرض کی ادائیگی میں تاخیر پر اتنا زائد ادا کرے گا۔

دین اسلام نے جس چیز کو سود قرار دیا اس کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے جو استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھو دیتی ہیں‘ مثلاً سود پر اگر نقد روپیہ یا اجناس وغیرہ لیے گئے ہیں تو یہ استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھودیں گے اس کے بعد مقروض انھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر کے اضافے کے ساتھ لوٹانے کا پابند ہوگا، یہی ظلم ہے جسے اسلام روکنا چاہتا ہے اور اسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔

قسطوں پر اشیاء کی خریداری کا معاملہ بینک کے قرض سے اس لیے مختلف ہے اس میں جن دو اشیاء کا تبادلہ ہو رہا ہے وہ مختلف جنس سے تعلق رکھتی ہیں جیسے گاڑی لیکر روپیہ ادا کیا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قسط پر خریدی جانے والی شے کی کل قیمت طے کر لی جاتی ہے، ہر ماہ ادا کی جانے والی رقم بھی طے ہو جاتی ہے اور اس میں ادائیگی کی تاخیر پر کوئی اضافہ نہیں ہوتا، جبکہ بینک کے قرض میں ایسا نہیں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں خریدار ایک چیز کا نہ صرف مالک بنتا ہے، بلکہ اس کا مستقل استعمال بھی کرتا ہے، جبکہ بینک کا قرض خرچ ہونے کے بعد اپنا وجود کھو دیتا ہے جسے مقروض نے نئے سرے سے پیدا کر کے لوٹانا ہے، یہی وہ ظلم ہے جس کی وجہ سے سود سے روکا گیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

بینک سے قسطوں پر گاڑی لینے کی بجائے سودی قرض لیکر خریدنا کیسا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔