کیا ہندوستان میں‌ مقیم مسلمان سودی کاروبار کر سکتے ہیں؟


سوال نمبر:714
کیا ہندوستان میں‌ مقیم مسلمان سودی کاروبار کر سکتے ہیں؟

  • سائل: محبوب حسینمقام: بنگلور، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 04 مارچ 2011ء

زمرہ: سود

جواب:

سود کی نص قرآن سے حرام ہے۔ قرآن پاک میں ہے :

وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

(الْبَقَرَة ، 2 : 275)

’’حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘

ثابت ہوگیا کہ سود کا لین دین حرام ہے یہ کمائی رزق حرام ہے۔

حدیث پاک میں آتا ہے :

کل قرض جرّ منفعةً فهو ربوا

(جامع الصغير)

’’جو قرض کچھ نفع کمائے وہ سود ہے۔‘‘

اس سے فقہا کرام نے سود کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے :

ایک معین مقدار روپیہ معین میعاد کیلئے ادھار دے کر معین شرح کے ساتھ نفع یا زیادتی کا نام سود ہے۔

حدیث میں آتا ہے :

لَعَنَ رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اٰکِل الربوا و موکِله و کاتبَه و شاهدَيه وقال هم سواءٌ.

(مسلم، 1 : 35، 36)

’’حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے پر اسکی وکالت کرنے والے پر، لکھنے والے اور اسکی گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سارے (گناہ) میں برابر ہیں۔‘‘

تو سود کا لین دین حرام قطعی ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔

قرض حسنہ بغیر سود کے کسی کو قرض دینا بہت بڑی نیکی ہے اسلیے کہ قرآن میں غریب کو قرض حسنہ دینا اللہ پاک نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے کہ یہ مجھے قرض دینا ہے۔ اگر کسی کو زیادہ پیسہ درکار ہو اور کاف وقت کے لیے ہو تو علماء کرام نے تجویز دی ہے کہ سونا وزن کر کے قیمت معلوم کریں اور اسکو کہے کہ میں نے تجھے اتنے سونے کی قیمت دی ہے آپ مجھے اتنے سونے کی قیمت یا سونا واپس کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان