جواب:
شرعِ متین میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ ناحق ہے۔ قرآن وحدیث میں قتلِ انسانی کی شدید مذمت اور دنیا و آخرت میں اس کی سخت سزا ہے۔ قتل کی اقسام اور احکام کی وضاحت درج ذیل ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیْهَا وَغَضِبَ اﷲُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اسکی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔
النساء، 4: 93
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰیط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰیط فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
البقرة، 2: 178
اور احادیث مبارکہ میں بھی ناحق انسانی خون بہانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَحِلُّ دَمُ امْریٍٔ مُسْلِمٍ یَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنِّي رَسُولُ اﷲِ إِلَّا بِإِحْدَی ثَـلَاثٍ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالثَّیِّبُ الزَّانِي وَالْمَارِقُ الدِّینهِ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَةِ.
کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، ماسوائے اس کے کہ ان تین میں سے کوئی ایک بات ہو یعنی جان کے بدلے جان اور شادی شدہ زانی اور دین سے نکلنے والا یعنی مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑنے والا۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَهْوَنُ عَلَی اﷲِ مِنْ قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِغَیْرِ حَق.
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زائل کرنا مومن کے ناحق قتل سے انتہائی آسان تر ہے۔
لہٰذا قتل انسانی کی بہت سخت سزا ہے۔ امام مرغینانی رحمہ اﷲ نے قتل عمد کی درج ذیل تعریف لکھی ہے:
الْعَمْدُ مَا تَعَمَّدَ ضَرْبَهُ بِسِلَاحٍ أَوْ مَا أُجْرِیَ مَجْرَی السِّلَاحِ کَالْمُحَدَّدِ مِنْ الْخَشَبِ وَلِیطَةِ الْقَصَبِ وَالْمَرْوَةِ الْمُحَدَّدَةِ وَالنَّارِ، لِأَنَّ الْعَمْدَ هُوَ الْقَصْدُ وَلَا یُوقَفُ عَلَیْهِ إلَّا بِدَلِیلِهِ وَهُوَ اسْتِعْمَالُ الْآلَةِ الْقَاتِلَةِ.
قتل عمد وہ قتل ہے (جس میں) ہتھیار سے یا ہتھیار کے قائم مقام کسی چیز سے مقتول کو مارنے کا قصد کیا جائے جیسے دھار دار لکڑی، بانس کا چھلکا، دھار دار تیز پتھر اور آگ، کیونکہ عمد ارادہ ہے جس پر اُس کی دلیل کے بغیر واقفیت نہیں ہو سکے گی اور وہ دلیل جان مارنے والے آلے کو استعمال کرنا ہے۔
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، کتاب الجنایات، 4: 442، بیروت: دار الاحیاء التراث العربي
ارادے کے ساتھ چھوٹی چھڑی، چھوٹا پتھر یا مکہ رسید کرنا جن سے اکثر کوئی مرتا نہیں ہے مگر کوئی شخص مر گیا تو قتل شبہ عمد ہو گا۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
الشِبْهُ الْعَمْدِ أَنْ یَتَعَمَّدَ الضَّرْبَ بِمَا لَیْسَ بِسِلَاحٍ وَلَا مَا أُجْرِیَ مَجْرَی السِّلَاحِ، اَیْ بِحَجَرٍ عَظِیمٍ أَوْ بِخَشَبَةٍ عَظِیمَةٍ.
شبہ عمد یہ ہے کہ قاتل ایسی چیز سے مارنے کا قصد کرے جو نہ تو ہتھیار ہو اور نہ ہی ہتھیار کے قائم مقام ہو، یعنی بھاری پتھر یا لکڑی سے مارنا۔
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، کتاب الجنایات، 4: 443
حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے اپنے والد محترم سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلَا یُقْتَلُ صَاحِبُه.
قتل عمد سے مشابہ کی دیت بھی قتل عمد کی طرح سخت ہے لیکن اس میں قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا۔
ایک روایت میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: الْعَمْدُ قَوَدُ الْیَدِ، وَالْخَطَأُ عَقْلٌ لَا قَوَدَ فِیهِ، وَمَنْ قُتِلَ فِي عِمِّیَّةٍ بِحَجَرٍ أَوْ عَصًا أَوْ سَوْطٍ فَهُوَ دِیَةٌ مُغَلَّظَةٌ فِي أَسْنَانِ الْإِبِلِ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جان بوجھ کر قتل پر قصاص ہوتا ہے، غلطی کے قتل پر ہرجانہ دینا ہوتا ہے، قصاص نہیں ہوتا اور جو اندھا دھند پتھر، عصا اور ڈنڈے برسنے سے قتل ہو جائے تو اس پر وہ پورا ہر جانہ لازم ہوتا ہے جو اونٹ کے دانت توڑنے پر ہوتا ہے۔
دار قطني، السنن، 3: 94، رقم: 47، بیروت: دار المعرفة
قتل خطا کی دو صورتیں ہیں:
1۔ خَطَأٌ فِي الْقَصْدِ: وَهُوَ أَنْ یَرْمِیَ شَخْصًا یَظُنُّهُ صَیْدًا ، فَإِذَا هُوَ آدَمِیٌّ، أَوْ یَظُنُّهُ حَرْبِیًّا فَإِذَا هُوَ مُسْلِمٌ.
ارادے میں خطا: یہ ہے کہ شکار سمجھ کر تیر مارا اور مرنے والا آدمی نکلے یا جنگ میں دشمن سمجھ کر مارا اور وہ مسلمان نکلا۔
2۔ خَطَأٌ فِي الْفِعْلِ: وَهُوَ أَنْ یَرْمِیَ غَرَضًا فَیُصِیبَ آدَمِیًّا.
عمل میں خطا: یہ ہے کہ تیر انداز کسی نشانے پر تیر مارے، لیکن وہ کسی انسان کو جا لگے۔
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، کتاب الجنایات، 4: 443
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَأًج وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓی اَهْلِہٖ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاط فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّـکُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍط وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓی اَهْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَةً مِّنَ اﷲِط وَکَانَ اﷲُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo
اور کسی مسلمان کے لیے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام یا باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
النساء، 4: 92
مَا أُجْرِیَ مَجْرَی الْخَطَأِ مِثْلُ النَّائِمِ یَنْقَلِبُ عَلَی رَجُلٍ فَیَقْتُلُهُ فَحُکْمُهُ حُکْمُ الْخَطَأِ فِی الشَّرْعِ.
وہ قتل جو قتل خطا کے قائم مقام ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے سونے والا کسی شخص پر پلٹ جائے اور اسے قتل کردے تو شریعت میں اسکا حکم قتل خطا کا حکم ہے۔
مرغینانی ، الهدایة شرح البدایة،کتاب الجنایات، 4: 159
قتل خطا اور قائم مقام خطا کی سزائیں ایک جیسی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
الْقَتْلُ بِسَبَبٍ کَحَافِرِ الْبِئْرِ وَوَاضِعِ الْحَجَرِ فِی غَیْرِ مِلْکِهِ وَمُوجِبُهُ إذَا تَلِفَ فِیهِ آدَمِیٌّ.
قتل سبب ایسے ہے جیسے کسی نے کنواں کھدوایا اور (اسے مکمل کرنے کے لیے) دوسرے کی ملکیت میں پتھر رکھے۔ اس کے سبب (گر کر) کوئی آدمی مرجائے۔
مرغینانی ، الهدایة شرح البدایة،کتاب الجنایات، 4:443
مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کرنا ہوگی۔
مندر جہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کے عمداً قتل کرنے والے کو بدلے میں قتل کیا جائے گا اور اگر مقتول کے ورثاء دیت پر مان جائیں تو پھر دیت ادا کرنی ہوگی جو کہ سو (100) اونٹ ہے اور اس کے علادہ قتل کی تمام تر صورتوں میں سو (100) اونٹ دیت ادا کرنا لازم آئے گا۔ حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے ان کے جد امجد حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَضَی أَنَّ مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِیَتُهُ مِائَةٌ مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَثَلَاثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ وَثَلَاثُونَ حِقَّةً وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذَکَرٍ.
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتل خطا کی دیت میں فیصلہ فرمایا کہ اس میں سو (100) اونٹ دیئے جائیں یعنی تیس اونٹنیاں ایک سالہ ہوں اور تیس اونٹنیاں دو سالہ ہوں اور تیس اونٹنیاں تین سالہ ہوں اور دس اونٹ دو سالہ نر ہوں۔
أبي داود، السنن، کتاب الدیات، باب الدیة کم هي، 4: 184، رقم: 4541، دار الفکر
اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فِيْ دِیَةِ الْخَطَإِ عِشْرُونَ حِقَّةً وَعِشْرُونَ جَذَعَةً وَعِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ وَعِشْرُونَ بَنِي مَخَاضٍ ذُکُرٍ.
قتل خطا کی دیت میں بیس تین سالہ اونٹنیاں، بیس چار سالہ اونٹنیاں، بیس یک سالہ اونٹنیاں، بیس دو سالہ اونٹنیاں اور بیس ایک سالہ نر اونٹ ادا کئے جائیں۔
أبي داود، السنن، کتاب الدیات، باب الدیة کم هي، 4: 184، رقم: 4545
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَ لَا إِنَّ دِیَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا کَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنْ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِ أَوْلَادِهَا.
آگاہ رہو کہ قتل خطا کی دیت جو قتل عمد سے مشابہ ہو سو (100) اونٹ ہے جن میں سے چالیس اونٹنیاں حاملہ ہوں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔
صاحب ہدایہ بیان کرتے ہیں:
وَالدِّیَةُ فِيْ الْخَطَأِ مِائَةٌ مِنْ الْإِبِلِ أَخْمَاسًا، عِشْرُوْنَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَعِشْرُوْنَ بِنْتَ لَبُوْنٍ وَعِشْرُوْنَ ابْنَ مَخَاضٍ وَعِشْرُوْنَ حِقَّةً وَعِشْرُوْنَ جَذَعَةً، وَهَذَا قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودَ رضی الله عنه ، وَأَخَذْنَا نَحْنُ وَالشَّافِعِيُّ بِهِ لِرِوَایَتِهِ أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیه وآله وسلم قَضَی فِيْ قَتِیْلٍ قُتِلَ خَطَأً أَخْمَاسًا.
قتلِ خطاء میں پانچ طرح کے سو (100) اونٹ واجب ہیں بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون، بیس ابن مخاض، بیس حقہ اور بیس جذعہ اور یہی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اور ہم نے امام شافعی رحمہ اﷲ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول کو اس وجہ سے اختیار کیا ہے، کیونکہ انہوں نے یہ روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی طرح قتلِ خطاء کے مقتول کے متعلق پانچ قسم کے اونٹوں کا فیصلہ فرمایا تھا۔
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، کتاب الجنایات، 4: 177
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہو اکہ قتلِ خطاء کی دیت سو (100) اونٹ ہے۔ جب جس علاقہ میں دیت ادا کی جائے گی، اُسی علاقہ کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق مذکورہ بالا اقسام کے (100) اونٹوں کی قیمت بطورِ دیت ادا کی جائے گی۔ لہٰذا دیت کا روپے کی شکل میں تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سو (100) اونٹوں کی مارکیٹ ویلیوں کے مطابق ہوتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔