کیا غیرمسلم ریاست میں اسلامی سزائیں قابلِ اطلاق ہیں؟


سوال نمبر:4746
کیا غیرمسلم ریاست میں اسلامی سزائیں قابلِ اطلاق ہیں؟ کیا کسی فرد کو یہ حق ہے کہ غیرمسلم ریاست میں اسلامی حدود کا نفاذ کرے؟

  • سائل: عمران سعیدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 مارچ 2018ء

زمرہ: حدود و تعزیرات

جواب:

اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، وہ اپنی مخلوق اور ان کے مصالح کا سب سے بڑھ کر علم رکھتا ہے کہ کیا چیز انسان کو فائدہ پہنچاتی ہے اور کس سے انسان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کے پیش نظر معاشرے میں‌ جرائم کی روک تھام اور امن و امان بحال رکھنے کے لیے سزاؤں کا نظام قائم کیا ہے۔ سزاؤں کا مقصد معاشرے میں ہر فرد کی جان و مال، عزت و آبرو اور فکر کا تحفظ ہے۔ یہ سزائیں علاقائی نہیں ہیں نہ کسی خاص معاشرے کے لیے ہیں، بلکہ ان کی نوعیت آفاقی ہے۔ اس لیے یہ قابلِ اطلاق تو ہر جگہ ہیں، ریاست چاہے مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلموں کی۔ شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے ریاست کے مسلم اکثریتی یا غیرمسلم اکثریتی ہونے سے فرق نہیں‌ پڑتا‘ اہمیت اس بات کی ہے کہ معاشرہ ان سزاؤں کی افادیت کا قائل ہے یا نہیں۔

جرم پر سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے۔ اگر کوئی مسلمان ایسے جرم کا مرتکب ہوتا ہے جس پر شریعت نے حداً یا تعزیراً سزا مقرر کر رکھی ہے اور ریاست مجرم کو وہ سزا نہیں دیتی تو کوئی فرد یا گروہ خود سے سزا نافذ نہیں کر سکتا۔ انفرادی طور پر شرعی حدود و تعزیرات نافذ کرنے کی کوشش کو دورِ حاضر میں ریاست کے اندر ریاست تصور کیا جاتا ہے اور ریاستیں اسے برداشت نہیں کرتیں۔ اگر غیرمسلم ریاست میں مجرم کو شرعی حدود کے مطابق سزا نہیں ملی تو اسے بالآخر اسی رب العالمین کے سامنے پیش ہونا ہے جس کی حدود کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ کوئی فرد خود سے شرعی حدود نافذ نہ کرے بلکہ لوگوں میں شرعی حدود و تعزیرات کی افادیت کا شعور اجاگر کر کے ریاست سے ان قوانین کو منوائے اور ریاستی طاقت سے ان کا نفاذ کیا جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری