جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
البقره، 2: 229
اگلی آیت میں فرمایا:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔
البقره، 2: 230
آیات میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ نکاح کے بعد شوہر کے پاس طلاق کے تین حق ہوتے ہیں۔ دو کے استعمال کے بعد وہ رجوع کر سکتا ہے، لیکن تینوں حق استعمال کرنے کے بعد شوہر کے پاس رجوع کا حق نہیں ہوتا۔ مذکورہ شخص نے بھی دو بار طلاق دی تھی، تیسری طلاق اس نے مخصوص وقت (10 منٹس) میں دروازہ نہ کھولنے کے ساتھ مشروط کی۔ یہ طلاق شرط کے ساتھ معلق (لٹکی ہوئی) تھی اگر شرط پائی گئی (کہ بیوی نے 10 منٹس میں دروازہ نہیں کھولا) تو طلاق بھی واقع ہو گئی اور شرط نہ پائے جانے پر طلاق واقع نہ ہوئی۔ کیونکہ جب طلاق کو کسی امر کے ساتھ مشروط کر دیا جائے تو اُس امر کے سرزد ہونے یعنی شرط پوری ہو جانے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ فقہاء کے ہاں یہ اصول ہے کہ:
وَإِذَا أَضَافَهُ إِلَی شَرْطٍ وَقَعَ عَقِیْبَ الشَّرْطِ.
جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا تو جب شرط پائی گئی، طلاق ہو جائے گی۔
صریح الفاظ سے دی گئی طلاق میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا نہ ہی کوئی عذر قابل قبول ہوتا ہے، طلاق بہرصورت واقع ہوجاتی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ.
تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں‘ ثابت ہو جاتے ہیں: نکاح‘ طلاق اور رجوع۔
ابوداؤد، السنن، 1: 298، رقم حدیث: 1875
یہی روایت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:
ثَلَاثٌ لَا يُلْعَبُ بِهِنَّ النِّكَاحُ، وَالْعَتَاقُ، وَالطَّلَاقُ.
تین کاموں کا مذاق نہ بنایا جائے نکاح طلاق اور غلام کو آزاد کرنا۔
مصنف ابن ابی شیبة: 18402
اس لیے جب طلاق صریح لفظ کے ساتھ دی جائے تو واقع ہو جاتی ہے، نیت کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔
شوہر کا یہ کہنا کہ میں نے طلاق کا لفظ غلط لکھا تھا‘ معتبر نہیں ہے۔ کیا بیوی کو ڈارانے کے لیے اسے صرف طلاق کی دھمکی ہی ملی تھی؟ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے، ایسے بہانوں سے حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق کے الفاظ میں تبدیلی سے طلاق کے واقع ہونے میں فرق نہیں پڑتا، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہی فتاویٰ شامی میں ہے۔ اس لیے شوہر کی طرف سے دی گئی یہ طلاق واقع ہو چکی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔