جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
النساء، 4: 3
یہ پسند دو طرفہ ہونی چاہیے۔ یکطرفہ پسند سے ازدواجی تعلق کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ قرآنِ مجید نے شادی کا مقصود باہمی سکون قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الرُّوْم، 30: 21
اس لیے اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو پسند نہ کرتے ہوں یا کوئی ایک فریق دوسرے کو پسند نہ کرتا ہو تو ان کا ساتھ رہنا فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں شوہر کے پاس طلاق اور عورت کے پاس خلع کا حق ہوتا ہے جسے استعمال کر کے وہ علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت کو بھی اختیار ہوتا کہ جب ایک فریق علیحدگی چاہتا ہو اور دوسرا اس کے لیے راضی نہ ہو تو عدالت بوقتِ ضرورت علیحدگی کروا سکتی ہے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور ان بیوی کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، حضرت ثابت کی بیوی کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی، لیکن وہ انہیں پسند نہیں کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی علیحدگی کروا دی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ ﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ. قَالَتْ نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ ﷲِ أقْبَلْ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً.
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی نہ عیب لگاتی ہوں، لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفران نعمت پسند نہیں (یعنی خاوند پسند نہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ وہ بولیں جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت ثابت سے) فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔
حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ:
إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَیِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ. فَأَتَتِ النَّبِيَّ فَرَدَّ نِکَاحَهَا.
ان کے والد ماجد نے ان کی کہیں شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔
اس لیے جب میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے کو پسند نہ کرتا ہو اور وہ عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے تو عدالت ان کا نکاح منسوخ کر سکتی ہے۔ اس لیے مسئلہ مسؤلہ میں عدالت کی تنسیخ درست ہے۔ آپ کا نکاح ختم ہو چکا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔