کیا عدالتی تنسیخ کے بعد لڑکی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟


سوال نمبر:1807
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا بچپن میں نکاح کیا گیا جب لڑکی بالغ ہوگئی تو اس نے عدالت میں کیس دائر کردیا کہ میرا بچپن میں اس شخص کے ساتھ نکاح کیا گیا تھا جو کہ مجھے ناپسند ہے اور میں اس کے ساتھ زندگی نہیں گذار سکتی لہٰذا اس نے خیار بلوغ کے تحت تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کردیا۔ عدالت میں دونوں کے وکیل پیش ہوتے رہے۔ آخر کار فیصلہ لڑکی کے حق میں ہوگیا۔ کیا اب اس عدالتی تنسیخ پر لڑکی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ فقہ حنفیہ کی معتبر کتب سے حوالہ جات دے کر واضح فرمائیں۔

  • سائل: احمد رضا اعظمی مقام: جمن شاہ ضلع لیہ
  • تاریخ اشاعت: 18 مئی 2012ء

زمرہ: فسخِ نکاح

جواب:

آپ نے نابالغ بچی کا نکاح کر کے، اس پر ظلم کیا ہے۔ نہ جانے ہمارے لوگوں کو عقل وشعور کب آئے گا؟ کیا دنیا میں کرنے کو کوئی اور کام نہیں؟ کہ معصوم بچوں کے مستقبل کو اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ

(النِّسَآء ، 4 : 3)

تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں،

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ

(النِّسَآء ، 4 : 6)

اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں

پہلی آیت کریمہ میں پسند کی شادی کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پسند میاں بیوی کی پسند ہے۔ یعنی لڑکا لڑکی پسند کی شادی کریں۔ قرآن نے پسند کی شادی کا حکم دے کر مرد و زن پر احسان عظیم کیا۔ مگر ہمارے معاشرے میں پسند یا ناپسند لڑکے لڑکی کی نہیں، صرف ماں باپ کی دیکھی جاتی ہے۔ بلاشبہ شادی والدین کے مشورے اور رضامندی سے کرنی چاہیے، مگر والدین کو بھی قرآن کریم کے ان احکام کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور اپنی مرضی کو اولاد پر ٹھونسنا نہیں چاہیے۔ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔ دوسری آیت کریمہ میں حد نکاح تک پہنچنے کا بیان ہے۔ جس سے واضح ہوا کہ نکاح بلوغ کے بعد ہونا چاہیے۔ نابالغ کا نکاح نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ ان دونوں احکام کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اولا جبرا نکاح کر دیتے ہیں اور بچوں کی رضامندی کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ثانیا مدت نکاح تک پہچنے سے پہلے نابالغوں کے نکاح کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اکثر شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔

سنت سے :

’’اذا خطب احدکم المراة فان استطاع ان ينظر الی ما يدعوه الی نکاحها فليفعل‘‘

(ابوداؤد : 291)

’’تم میں سے جب کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے، پھر اگر وہ خوبیاں دیکھ سکے جو اس کے نکاح کا سبب بن سکیں، تو دیکھے‘‘۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : هل نظرت اليها؟ تم نے اس عورت کو دیکھا ہے؟ قلت لا میں نے عرض کی نہیں :

’’فانظر اليها فانه اخری ان يودم بينکما‘‘

(احمد، ترمذی، ابن ماجه، دارمی)

’’فرمایا اسے دیکھ لو اس سے تمہارے درمیان مزید الفت پیدا ہو گی‘‘

’’قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا غیر شادی شدہ عورت کا نکاح اس سے پوچھے اور اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے۔ اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔

(بخاری و مسلم)

’’الايم احق بنفسها من وليها والبکر تستاذن فی نفسها‘‘

بالغ لڑکی اپنے ولی کے بہ نسبت اپنی ذات کے متعلق زیادہ حقدار ہے، اور کنواری لڑکی سے بھی اس کی ذات سے متعلق اجازت لی جائے۔

حنساء بنت خذام بالغ لڑکی تھی، اس کے باپ نے اس کی رضامندی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا۔

’’فاتت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فرد نکاحها‘‘

(بخاری، 2 : 772)

’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ نے اس کا نکاح رد کر دیا‘‘۔

’’ان جارية بکرا اتت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فذکرت ان اباها زوجها وهيی کارهة فخيرها النبی صلی الله عليه وآله وسلم‘‘

(ابوداؤد)

ایک بالغ لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ اور کہا اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا (کہ نکاح رکھو یا توڑ دو)۔

سوال مسؤلہ کی روشنی میں یہ نکاح ختم ہو چکا ہے، اب لڑکی آزاد ہے اور اپنی مرضی سے جہاں چاہیے نکاح کر سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی