جواب:
نکاح کا مقصد نسل انسانی کا تحفظ، گناہوں سے بچنا اور نظام تمدن و معاشرت کی اصلاح ہے۔ طلاق سے یہ تمام مقاصد نہ صرف فوت ہو جاتے ہیں بلکہ مزید معاشرتی و نفسیاتی مسائل بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں طلاق کا جواز صرف ناگزیر حالات ہی میں روا رکھا گیا ہے کہ جب میاں بیوی کے تعلقات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ اکٹھے رہنے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہو اور اصلاح کی تمام تر کوششیں بےسود ہو گئی ہوں۔ اسی وجہ سے اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ شے قرار دی گئی ہے۔ طلاق کے جواز کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کی فرمائش پر بیگناہ طلاق دے دی جائے اور جن رشتوں کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ان کے بلاوجہ کاٹ کر رکھ دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ.
اور جو لوگ ان سب (رشتوں) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں۔
صلہ رحمی کرنے (رشتوں کو جوڑنے) والے مومنین کو اللہ تعالیٰ بہشت میں ایسا ٹھکانہ دے گا جس کا نقشہ قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں کھنیچا ہے کہ:
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ. سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ.
(جہاں) سدا بہار باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہوگا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گے۔ (انہیں خوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے:) تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔
الرَّعْد، 13: 21، 23- 24
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے، ارشاد ہے:
وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.
جو اللہ اور یومِ آخرت (میں اس کے سامنے پیش ہونے) پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ رشتوں کو جوڑے۔
بخاري، الصحیح، 5: 2273، رقم: 5787، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
لہٰذا رشتے توڑنا ایمان والوں کا شیوہ نہیں ہے اور ایک بیوی کا دوسری کو طلاق دلوانہ بھی جائز عمل نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تَسْأَلُ طَلاَقَ أُخْتِهَا، لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا، فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا.
کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔
بخاري، الصحیح، 5: 1978، رقم: 4857
اس لیے اگر طلاق دینے کی کوئی وجہ نہیں تو ایک بیوی کی فرمائش پر دوسری کو طلاق دینا بدترین ظلم ہے۔ آپ کے شوہر دوسری بیوی کو نرمی سے سمجھائیں کہ بلاوجہ طلاق دینا اللہ کے حضور کتنا بڑا جرم ہے۔ رشتہ داروں کو شامل کر کے اسے منانے اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کوششیں بیکار ہو جاتی ہیں اور دوسری بیوی پھر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور کہتی ہے کہ ’مجھے طلاق دے دو یا پہلی بیوی کو‘ تو اس دوسری کو ایک، صرف اور صرف ایک طلاق دیں۔ اگر طلاق ہو جاتی ہے تو بچے فی الحال ماں کے پاس رہیں گے لیکن ان کی کفالت باپ کے ذمہ ہوگی۔ جب بچے تمییز (پہچان و فرق) کی عمر کو پہنچ جائیں تو انکو انتخاب کرنے کا موقع دیا جائے گا کہ وہ ماں‘ باپ میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔