جواب:
سیدہ مریم سلام اللہ علیہا اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھیں‘ اور سیدنا زکریا علیہ السلام نے ان کے حجرہ مبارک کی برکات کو دیکھ کر وہاں دعا کی۔ قرآنِ مجید اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ.
اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
آل عِمْرَان، 3: 38
اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی اس ادا کو نہ صرف پسند کیا بلکہ امتِ محمدیہ کی تربیت کے لیے بیان بھی کیا ہے۔ اسی طرح اصحابِ کہف کے وصال کے بعد ان کی قوم کے ان سے منسوب غار سے حصولِ برکت کے لیے اس کے قریب عبادت گاہ تعمیر کی‘ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو بھی بیان کیا ہے۔ ارشاد ہے:
إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا.
جب وہ (بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے (جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک عمارت (بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)۔
الْكَهْف، 18: 21
قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
هٰذِهِ الْآیَةُ تَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ لِیُصَلّٰی فِیْهِ عِنْدَ مَقَابِرِ أَوْلِیَاءِ اﷲِ قَصْدًا لِلتَّبَرُّکِ بِهِمْ.
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اَولیاء کرام کے مزارات کے قریب ان سے برکت حاصل کرنے کے لئے مسجد بنانا اور اس میں اس مقصد کے لئے نماز پڑھنا جائز اُمور ہیں۔
قاضي ثناء اﷲ، التفسیر المظهری، 6: 23، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربی
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم؟ فَیَقُولُونَ نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ؟ فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَیُقَالُ: هَلْ فِیکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُولُونَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَهُمْ.
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے: ہاں (ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے)۔ تو انہیں (اس صحابی رسول کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر انہیں (اس تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، تو انہیں (تبع تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔
مذکورہ آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ صلحاء کے آثار سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔ اس موضوع پر سیر حاصل مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’تبرک کی شرعی حیثیت‘ ملاحظہ کیجیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔