سیدنا علیؓ کو مولا اور مشکل کُشا کیوں کہتے ہیں؟


سوال نمبر:1918
’’الفتاح‘‘ اللہ کی صفت ہے تو پھر حضرت علی کو مشکل کشا کیوں کہتے ہیں اورقرآن میں کافی بار لفظ ’’مولا‘‘ اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے تو پھر حضرت علی کو مولا کیوں کہتے ہیں۔ ’’النصیر‘‘ صفت اللہ کی ہے تو پھر حضرت علی سے مدد کیوں مانگتے ہیں؟ تفصیلاً بیان فرمائیں۔

  • سائل: مرزا محمد اقبالمقام: خوشاب
  • تاریخ اشاعت: 27 جون 2012ء

زمرہ: روحانیات  |  استغاثہ و استمداد /نداء یار سول اللہ  |  توسل  |  شرک  |  توحید

جواب:

’الفتاح‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

اب ذرا دیکھیے یہی اسماء حسنی بندوں کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً

الْعَالِمُوْنَ

العنکبوت، 29 : 43

’’علم والے بندے‘‘

آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا

يوسف 12 : 22

’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی

طه 20 : 68

’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام قرآن کریم میں متعدد نام جہاں اپنے لیے استعمال فرمائے ہیں بعینہ وہی اسمائے وصفی اپنے بندوں کے لیے بھی استعمال فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر شرک کا دشمن اور توحید کا حامی کون ہو سکتا ہے ؟ ایسا کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں شرک برائی ہے اور اللہ تعالیٰ برائی کا نہ مرتکب ہو سکتا ہے نہ اپنے بندوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ہے۔

إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَo

(النحل، 16 : 90)

’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘

اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں بس اتنا فرق ملحوظ رکھیں کہ اللہ اپنی شان کے مطابق حاکم ہے بالذات و بالاستقلال۔ بندے اس کی عطا سے اور اس کے بنانے سے حاکم ہیں بندوں کے تمام کمالات اس کی عطا اور خیرات ہے جبکہ اس کے تمام کمالات ذاتی ہیں کسی کی عطا سے نہیں۔

مولا کا مطلب :

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا

 فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌo

التحريم 66 : 4

’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘

یہاں پر مولا مدد گار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا ) کون کون ہیں :

  1. اللہ تعالیٰ
  2. جبریل علیہ السلام
  3. نیک مسلمان
  4. تمام فرشتے

یہ کہنا جہالت ہے کہ اللہ ہی مولا ہے جب صالح مومنین نبی پاک کے مدد گار ہیں جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار ہیں تو یہ نیک مسلمان اور جبریل علیہ السلام اللہ تو نہیں اہل ایمان ہیں مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں

مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اﷲِ

اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،

آل عمران، 3 : 52

اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔

  1. رب (پرورش کرنیوالا)
  2. مالک۔ سردار
  3. انعام کرنیوالا
  4. آزاد کرنیوالا
  5. مدد گار
  6. محبت کرنیوالا
  7. تابع (پیروی کرنے والا)
  8. پڑوسی
  9. ابن العم (چچا زاد)
  10. حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
  11. عقید (معاہدہ کرنے والا )
  12. صھر (داماد، سسر )
  13. غلام
  14.  آزاد شدہ غلام
  15. جس پر انعام ہوا
  16. جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
  17. جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔

ابن اثير، النهايه، 5 : 228

مشکل کشا :

حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔

هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِo

الشعراء، 26 : 79

’’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘

کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤگے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ

وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِo

الشعراء، 26 : 80

’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘

مومن حاجت روا مشکل کشا :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنه

ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702

’’ جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

’’من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘

بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670

’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں

’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس اﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر اﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره اﷲ فی الدنيا والآخرة واﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل اﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت اﷲ يتلون کتاب اﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم اﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه.‘‘

مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699

’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

’’من ولا ه اﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب اﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس‘‘

ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948

’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادئیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا۔‘‘

مزید فرماتے ہیں

’’من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق اﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689

’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا۔‘‘

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ

1 : عمدہ ترکی نسل کے گھوڑے پر سواری نہیں کرے گا۔

2 : چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا۔

3 : باریک کپڑا نہیں پہنے گا۔

ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم

بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394

’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘

خلاصہ کلام :

اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطاسے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مستقل اور ذاتی ہیں مخلوق کی صفات عارضی اور عطائی ہیں تمام صفات میں یہی اصول پیش رہے بادشاہی حکم (حاکم) گواہ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ اللہ ہے نبی ولی اور دیگر مخلوق اپنی حیثیت رکھتی ہیں ایک کی جگہ دوسرے کو بٹھانا ظلم ہے۔ بندہ کو بندہ کی حیثیت میں مانو اللہ تعالیٰ کو اس کی حیثیت و شان کے مطابق۔

مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
کیا یا علی مدد اور المدد یا غوث الاعظم کہنا جائز ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی