جواب:
اسلام نے نکاح کو خاندان کی بنیاد بنایا ہے اور زوجین پر ایک دوسرے کے فرائض مقرر کیے ہیں۔ چنانچہ بیوی پر شوہر کے حقوق ہیں اور شوہر پر بیوی کے حقوق ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ.
اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے۔
البقره، 2: 228
سورہ النساء میں اس فضیلت کا سبب یوں بیان کیا ہے کہ:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ.
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
النساء، 4: 34
اسلام کی نظر میں مرد اور عورت دونوں انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں‘ عورت کسی بھی طرح کمتر یا حقیر نہیں۔ اسلام نے خاندان کو ایک ادارے کے طور پر پیش کیا ہے اور شوہر و بیوی اس کے ارکان ہیں۔ جس طرح کسی ادارے میں فرد کو منصب اس کی اہلیت کی بنا پر دیا جاتا ہے اسی طرح خاندان میں شوہر اور بیوی کے فرائض ان کی جسمانی ساخت اور فطرت کی بنیاد پر طے کیے گئے ہیں۔ شوہر کو گھرکا رکھوالا یا منتظم تسلیم کیا گیا ہے اس اعتبار سے وہ عورت کا نگران و محافظ اور گھر کا سربراہ ہے۔
شوہر کو اگرچہ اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے گھر میں فوقیت حاصل ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے خدائی کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی جہالت اور ہندوانہ رسومات کا اثر ہے۔ شوہر کو مجازی خدا کہنا قبیح قول ہے۔ خدا میں کوئی مجاز نہیں ہوتا، خدا ایک ہی ہے اور وہ حقیقی ہے۔ وہی شوہر کا خدا ہے اور وہی بیوی کا خدا ہے۔ اس لیے ایسے جملے بولنے سے احتراز ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔