جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کی فہرست بیان کی ہے جن سے نکاح حرام ہے اور اس فہرست کی ابتداء سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح کی حرمت سے کی گئی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاً.
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے۔
النساء، 4: 22
اسلام کی آمد سے پہلے کچھ قبائل میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحات بیٹوں کو وراثت میں ملتی تھیں اور بیٹے انھیں بیوی بنا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ قرآنِ مجید نے اسے صریح بےحیائی، نہایت قابل نفرت فعل اور بدترین رواج قرار دیا ہے اور کسی بھی مسلمان کے لیے اس فعل شنیع کا ارتکاب حرام ہے۔
اس لیے جس شخص نے بھی سوتیلی ماں سے نکاح کیا ہے‘ اس نے قطعی فعلِ حرام کا ارتکاب کیا۔ اس کا نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔ اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔