جواب:
امام و خطیب کی رہائش گاہ مصالحِ مسجد میں سے ہے، اس لیے مسجد کے نیچے یا اوپر امام و خطیب کی رہائش گاہ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں:
لَوْ بَنَی بَیْتًا عَلَی سَطْحِ الْمَسْجِدِ لِسُکْنَی الْإِمَامِ فإِنَّهُ لَا یَضُرُّ فِي کَوْنِهِ مَسْجِداً لِأَنَّهُ مِنَ الْمَصَالِحِ.
اگر امام کی رہائش کے لیے مسجد کے اوپر گھر بنایا تو اس مسجد کی تعمیر میں کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ مصالح (مسجد) میں سے ہے۔
ابن نجیم، البحر الرائق، 5: 271، بیروت: دار المعرفة
اور علامہ محمد بن علی المعروف علاؤالدین حصکفی فرماتے ہیں:
لَوْ بَنَی فَوْقَهُ بَیْتًا لِلْإِمَامِ لَا یَضُرُّ لِأَنَّهُ مِنْ الْمَصَالِحِ.
اگر مسجد کے اوپر امام کے لیے گھر بنایا تو خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے۔
حصکفي، الدر المختار، 4: 358، بیروت: دار الفکر
اس لیے ضرورت کے مطابق انتظامیہ نے مسجد کے تہہ خانے میں یا مسجد کے اوپر امام و خطیب کی رہاش گاہ تعمیر کی ہے تو وہ فیملی سمیت وہاں رہ سکتے ہیں۔ ٹیلیویژن اور اس طرح کی دیگر ایجادات اب انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، شاید ہی کوئی گھر ہو جو ٹیلی ویژن، موبائل یا انٹرنیٹ سے خالی ہو۔ ان چیزوں کا اچھا یا برا استعمال ان کے استعمال کنندہ پر منحصر ہے۔ اگر ٹیلی ویژن حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے یا دیگر جائز کاموں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو بلاشبہ امام صاحب کا مسجد کے اوپر بنائی گئی رہائش گاہ پر ٹیلی ویژن رکھنا بھی جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔