سوال نمبر:4521
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک لڑکی کا نکاح اڑھائی سال کی عمر میں اس کے والد نے وٹہ سٹہ میں کر کے دیدیا تھا لڑکی کا بھائی وٹہ میں اس کی نند سے شادی شدہ بچوں کا باپ ہے مگر مذکورہ لڑکی کا ناکح اس سے شادی نہیں کرتا اور نہ ہی طلاق دیتا ہے بلکہ ایک اور عورت سےشادی شدہ بچوں کا باپ ہے۔ برادری اور پنچائت کے منت سماجت کی گئی کہ رخصتی لے لو یا طلاق دیدو مگر وہ کچھ بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف عدالتی نظام چونکہ زیادہ تر عائلی قوانین پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے تعنت کو بنیاد بنا کر نکاح فسخ کرانا ممکن نہیں بلکہ اس عنوان سے کوئی وکیل بھی مقدمہ لڑنے کیلئے تیار نہیں۔ وکلاء کا مزید کہنا ہے کہ خلع اور خیار بلوغ کو بنیاد بنا کر تنسیخ کرایا جا سکتا ہے‘ تعنت کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ یہ صرف مذکورہ لڑکی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس طرح کی متعدد لڑکیاں جو والدین کی طرف سے بچپن کے نکاح کی بھینٹ چڑھ گئیں ہیں اپنے والدین کے گھر اپنی عمریں ضائع کررہی ہیں۔ اہل علم کی خدمت میں بالعموم اور اہل فتوی کی خدمت میں بالخصوص التجا ہے کہ ایسی صورت میں اگر تعنت کی بجائے خلع یا کسی دوسرے عنوان سے تنسیخ کرالی جائے تو شرعاً گنجائش ہے یا نہیں؟ مذکورہ لڑکی کیلئے مزید انتظار کرنا ابتلائے عظیم ہے اور گناہ میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ لہٰذا اس پر فتن دور میں استحصالی نظام کا شکاراس صنف نازک کیلئے سر جوڑ کر کوئی سبیل نکل سکتی ہے تو ضرور آگاہ فرمائیں۔
- سائل: محمد نعیم قمرمقام: وہاڑی
- تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2017ء
جواب:
نابالغ کا نکاح قرآن و حدیث اور ملکی قانون کے بالکل منافی ہے۔ صحت نکاح کے لئے
بلوغت لازمی شرط ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس لیے لڑکی جہاں
چاہے شادی کر سکتی ہے۔ وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
بلوغت سے
پہلے ہونے والے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔