جواب:
حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا صَلَّی مَعَ الْإِمَامِ صَلَّی أَرْبَعًا وَإِذَا صَلَّاهَا وَحْدَهُ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (سفر میں) امام کے ساتھ چار رکعت پڑھتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
مسلم، الصحیح، 1: 482، رقم: 694، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
معلوم ہوا کہ مسافر جب اکیلا نماز ادا کرے گا تو قصر ہی کرے گا مگر جب مقیم امام کی اقتداء میں ہوگا تو پھر پوری نماز ادا کرے گا۔ لیکن باجماعت نماز ادا کرنا افضل اور باعث اجروثواب ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ: صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ دَرَجَةً.
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: باجماعت نماز کو تنہا کی نماز پر ستائیس درجے فضیلت ہے۔
بخاري، الصحیح، 1: 231، رقم: 619، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
اس لیے جب مسافر کو باجماعت نماز ادا کرنے کا موقع ملے تو اسے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ باجماعت نماز ادا کرنا بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ اگر مقیم امام کی اقتداء جماعت ہو رہی ہے یا ہونے لگی ہے اور مسافر کا جماعت کو چھوڑ کر الگ نماز شروع کرنا درست نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔