کیا اسلام میں دُشْنام طَرازی جائز ہے؟


سوال نمبر:4440
آجکل کچھ لوگ منبرِ رسول پر بیٹھ کراپنےمخالفین کوگندی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں، زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب کچھ بےوقوف لوگ ان کےدفاع میں آ جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک شخص نےنعوذبااللہ گالی کی نسبت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کر دی اور دلیل میں یہ حد یث پیش کی۔ ”صحیح بخاری“ میں ہے کہ جب عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ اگر آپ اپنی قوم کا استیصال کریں گے اور اگر مغلوب ہوئے، تو یہ مختلف النوع لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تو اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ”امصص بظر اللات“ بہراہ کرم اس پر تفصیل سے جواب ذکر کریں۔ اللہ رب العزت ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائیں۔ آمین

  • سائل: خرم احمد خانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 19 اکتوبر 2017ء

زمرہ: معاشرت  |  رذائلِ اخلاق

جواب:

قرآن و حدیث، روایات اور مسلمانوں کی سیرت کے پیش نظر شرع مقدس اسلام کے مطابق گالی دینا اور سبّ و شتم ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر، 1 / 27، الرقم : 48
  2. مسلم، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله کفر، 1 / 81، الرقم : 64

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا ہے کہ:

المستبان شیطانان یتها تران ویتکاذبان

’’ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

ابن حبان، الصحیح، 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة

ولید بن مغیرہ وہ شخص تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغِ حق سن کر نعوذ باللّہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون کہا۔ یہ بات اللّہ تعالیٰ کی بارگاہ اتنی معیوب تھی کہ ستار العیوب نے اپنے کلامِ حق میں اس کے عیب گنوائے۔ جن میں سے ایک عیب یہ تھا کہ:

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍO

(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے۔

الْقَلَم، 68: 13

ولید بن مغیرہ غضب سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور ماں کے سینے پر سوار ہو کر کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے 9 عیب گنوائے ہیں، آٹھ مجھے پتہ ہیں کہ میرے اندر موجود ہیں لیکن نویں عیب کی تصدیق تمہارے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا (یا 10 عیب اور 9 جانتا ہوں)۔ اس کی ماں نے کہا کہ تمہارا باپ ناکارہ تھا، مجھے خطرہ تھا کہ اس کی وفات کے بعد ہمارے مال کا کیا بنے گا، سو میں نے ایک چرواہے کو بلایا، تو اسی کی اولاد ہے۔

تِبیانُ القرآن، جلد 12، صفحه 185

اس سے واضح ہوتا ہے کہ گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کی حقیقت کھول کر بیان کر دی، جس کی بعد ازاں اس کی ماں نے بھی تصدیق کر دی۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’اگر یہ صورت ہوئی کہ قریش کو آپ پر غلبہ حاصل ہوگیا، تو واللہ! میں (آپ کے اردگرد) رلے ملے اور مختلف النوع لوگوں کو دیکھ رہا ہوں، جو اس لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں‘۔ عروہ کا لہجہ انتہائی گستاخانہ تھا جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:

امْصَصْ بَظْرَ اللات، أنحنُ نَفِرُّ عنه ونَدَعُه.

”تولات کی بظر چوس! کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ فرار اختیار کریں گے اور آپ کو چھوڑ دیں گے؟

صحیح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجهاد، ص:378، ج:1، قدیمی کتب خانه: کراچی

بظر کے دو معنیٰ ہیں:

  1.  شرم گاہ
  2. ہونٹ کے درمیان کا ابھرا ہوا حصہ

القاموس الوحید:171

اولاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان کا تقاضا یہی ہے کہ اس لفظ کو اس کے اچھے معنی پر محمول کیا جائے۔ ثانیاً صلح حدیبیہ کے موقع پر ابتداً حالات صلح کے نہیں‘ بلکہ جنگ کے تھے۔ حالاتِ جنگ کے بعض اَحکام‘ زمانہ امن کے اَحکام سے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس جملے کو پہلے معنیٰ پر محمول کیا جائے تو یہ غیرمعمولی حالات میں بولا گیا جملہ ہے‘ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ(معاذ اللہ) گالی دینا آپ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا۔

اگر کوئی شخص پوری سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قرآنی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں کو ایک طرف رکھ دے اور اس ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر منبرِ رسول پر بیٹھ کر اپنے مخالفین کو مغلظات سے نوازے تو اسے فیصلہ اپنے ضمیر سے لینا چاہیے کہ وہ مذہب کی کیا خدمت کر رہا ہے؟ یہ دور گولی اور گالی کا نہیں‘ دلیل کا ہے۔ اگر کسی کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دلیل ہے تواسے گالی دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اگر وہ بےدلیل بات کر رہا ہے تو گالی دینے سے اس کی بات کا وزن بڑھ نہیں جائے گا بلکہ وہ مزید بے وزن ہو جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری