جواب:
انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنے ہم خیال اور اپنے جیسی طبیعت کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے ہم خیال و ہم جلیس کے ساتھ رہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ اسی فطری جذبہ کو قرآنِ مجید نے بھی بیان کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ زانی مرد سے زناکاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو زانیہ یا مشرکہ ہو کہ زنا کو عیب نہ سمجھتی ہو۔ ایسی عورت کے ساتھ رہنے کو قبول وہی مرد کرتے ہے جو اسی جیسا بدکار یا مشرک ہو کہ زنا کی حرمت کا قائل نہ ہو۔ زناکاری کرنا یا زانیہ سے نکاح کرنا اسی طرح اپنی پاک دامن عورتوں کو زانی مردوں کے نکاح میں دینا مومنوں پر حرام ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ.
بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے (کسی پاکیزہ عورت سے) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا اور بدکار عورت سے (بھی) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے کوئی (صالح شخص) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا، اور یہ (فعلِ زنا) مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔
النُّوْر، 24: 3
درج بالا آیت میں نہ صرف لوگوں کی پسندیدگی کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ ایسا زانی یا زانیہ جس نے توبہ نہ کی ہو، جس کے زنا کی شہرت عام ہو اس کے ساتھ کسی مومن کا نکاح جائز نہیں ہے۔ جب کسی مرد یا عورت کی بدچلنی کا علم ہو تو اس کے باوجود اس سے نکاح کرنا اہل ایمان کے لیے حرام ہے۔ اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیں، اس عمل کو ترک کر کے اپنی اصلاح کر لیں تو زانی یا زانیہ کی صفت ان سے ختم ہو جائے گی۔ آیت کا منشاء یہی ہے کہ جن لوگوں کی بدکاری معلوم ہو ان کو جیون ساتھی منتخب کرنا گناہ ہے‘ اس سے اہلِ ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے بدکاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس حکمِ خداوندی میں یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ زنا ایسا قبیح فعل ہے جس کا مرتکب اسلامی معاشرے اور صالح خاندانی نظام کا حصہ بننے کے قابل نہیں رہتا۔ اسی لیے ارشاد فرمایا:
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ.
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لئے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں (سو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لئے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہوگی)، یہ (پاکیزہ لوگ) ان (تہمتوں) سے کلیتًا بری ہیں جو یہ (بدزبان) لوگ کہہ رہے ہیں، ان کے لئے (تو) بخشش اور عزت و بزرگی والی عطا (مقدر ہو چکی) ہے (تم ان کی شان میں زبان درازی کر کے کیوں اپنا منہ کالا اور اپنی آخرت تباہ و برباد کرتے ہو).
النُّوْر، 24: 26
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مرد زانی ہے تو اس کو لازماً زانی عورت ہی ملے گی، یا عورت زانی ہے تو اس کے نصیب میں فقط زانی مرد ہی ہوگا۔ قرآنِ مجید نے اس کا انکار کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآنِ مجید میں ایسے انبیاء علیھم السلام کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جن کی بیویاں کافرہ تھیں۔ فرعون جیسے بدترین کافر کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے صالحہ خاتون قرار دیا ہے اور ان کی سیرت کا تذکرہ بھی قرآنِ مجید میں ملتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔