جواب:
شہادت کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: ایک کو حقیقی شہادت کہا جاتا ہے اور دوسری حکمی شہادت کہلاتی ہے۔ جو لوگ راہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں وہ حقیقی شہداء کہلاتے ہیں۔ یہی وہ شہداء ہیں جن کی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے اور جنہیں ان کی موت کے باوجود مردہ گمان کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو میدانِ جنگ میں تو نہیں مارے گئے مگر حدیثِ پاک میں ان کی موت کو شہادت قرار دیا گیا ہے‘ انہیں شہیدِ حکمی کہا جاتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اﷲِ.
’’شہداء پانچ طرح کے ہیں: جو طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے مر گیا، پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک وغیرہ) سے مر گیا، جو ڈوب کر (دریا میں، جھیل میں، سمندر میں، سیلاب میں، گلیشئرز میں، کنوئیں یا نہر یا ڈیم میں) مر گیا، جو (مکان وغیرہ کی چھت، پہاڑی تودے، گلیشئر، گاڑی کے نیچے، عمارت کے نیچے) دب کر مر گیا اور جو اﷲ کی راہ میں (دشمنوں، باغیوں، ڈاکؤوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔‘‘
حدیثِ پاک میں جن پانچ شہداء کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کسی خاص دن کی وفات کا ذکر نہیں، بلکہ مذکورہ وجوہاتِ وفات کی بناء پر مرنے والے کو شہید کہا گیا ہے۔ اس لیے عید کے دن وفات پر کسی شخص کو شہید نہیں ٹھہرایا جاسکتا، حدیثِ پاک میں جو پانچ وجوہات بیان ہوئی ہیں اگر ان کی وجہ سے کسی کی وفات ہو جائے تو وہ شہید کے حکم میں داخل ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔