کیا ہر مقتول شہید کہلائے گا؟


سوال نمبر:3812
مفتی صاحب کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے رشتے داروں سے زمین کا باہمی تبادلہ کیا کیونکہ ہماری دونوں کی زمینیں ایک دوسرے کے گھر کے قریب پڑتی تھیں یہ تبادلہ کچھ لوگوں پر ناگوار گزرا اور انہوں نے بارہا ہم سے جھگڑے کی کوشش کی مگر ہر بار ہم نے اس سے بچنے کی کوشش کی حالانکہ وہ زمین نہ تو ان کے گھر کے قریب پڑتی تھی اور نہ ہی اس پر انکا کوئی حق بنتا تھا اور وہ تین بار بھتہ بھی لے چکے تھے مگر 12 ربیع الاول کی صبح 8 بجے میرے انکل اپنی زمین کو چکر لگانے جا رہے تھے کہ دشمنوں نے فائر مارا اور وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے اور میرے انکل کو فائر لگنے کے بعد ہمارے ہاتھوں وہ قاتل بھی زخمی ہوا حالانکہ اس سے پہلے ہمارا جھگڑے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا میرے انکل شہید ہیں یا انہیں ہم شہید نہیں کہہ سکتے؟ اور کیا میرے انکل کو فائر لگنے کے بعد جو وہ قاتل ہمارے ہاتھوں زخمی ہوا اس کے لیے ہم اللہ تعالی کے سامنے گنہگار یا سزاوار ہیں یا نہیں؟

  • سائل: منظور حسینمقام: ڈیرہ غازی خان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 19 فروری 2016ء

زمرہ: شہید کے احکام

جواب:

شہادت دو طرح کی ہے: ایک حقیقی اور دوسری حکمی

جو لوگ میدانِ جنگ میں جہاد کرتے ہوئے راہِ خدا میں اپنے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، انہیں شہدائے حقیقی کہا جاتا ہے جیسے غزاوات میں شہید ہونے والے صحابہ کرام، میدانِ کربلاء کے شہید ہونے والے اصحابِ امام حسین اور سرحدوں کی حفاظت کی خاطر شہید ہونے والے افواجِ پاکستان کے شہداء وغیرہ۔

حکمی شہداء میں وہ لوگ شامل ہیں جو میدان جِہاد میں تو شہید نہیں ہوتے تاہم احادیث میں ان کی موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے۔ متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں۔ ذیل میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اﷲِ.

’’شہداء پانچ طرح کے ہیں: جو طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے مر گیا، پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک وغیرہ) سے مر گیا، جو ڈوب کر (دریا میں، جھیل میں، سمندر میں، سیلاب میں، گلیشئرز میں، کنوئیں یا نہر یا ڈیم میں) مر گیا، جو (مکان وغیرہ کی چھت، پہاڑی تودے، گلیشئر، گاڑی کے نیچے، عمارت کے نیچے) دب کر مر گیا اور جو اﷲ کی راہ میں (دشمنوں، باغیوں، ڈاکؤوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح،3: 1041، رقم: 2674، دار ابن کثير اليمامة، بيروت، لبنان
  2. مسلم، الصحيح، 3: 1521، رقم: 1914، دار اِحياء التراث العربي، بيروت، لبنان

عن اَيوب قال: اَشرف علي النَّبيّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم و اصحابه رجل من قريش، من راْس تَلٍّ، فقالوا: ما اَجلد هذا الرجل! لو کان جَلَده في سبيل اﷲ، فقال النَّيي صلیٰ الله عليه وآله وسلم: اَوَ ليس في سبيل ﷲ اِلا من قتل؟ ثم قال: من خرج في الاَرض يطلب حلالاً يکُفّ به اَهله فهو في سبيل اﷲ، ومن خرج يطلب التکاثر فهو في سبيل الشيطان.

’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک قریشی کو آتے ہوئے دیکھا، صحابہ کرام نے کہا یہ شخص کتنا زیادہ مضبوط ہے کاش اس کی مضبوطی اﷲ کی راہ میں ہوتی، تو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا صرف وہی شخص اﷲ کی راہ میں ہوتا ہے جو قتل ہو جائے؟ پھر فرمایا: جو زمین میں اپنے اہل و عیال کے لیے رزق حلال کے لیے نکلتا ہے وہ بھی اﷲ کی راہ میں ہوتا ہے (یعنی شہید ہوتا ہے)، جو زیادہ مال بنانے کے لیے نکلتا ہے وہ شیطان کی راہ میں ہے۔‘‘

عبد الرزاق، المصنف، 5: 271، 272، رقم: 9578، المکتب الاسلامي، بيروت، لبنان

عبد الملک بن هارون بن عنترة عن ابيه عن جده قال، قال رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ذات يوم: ما تعدون الشهيد فيکم قلنا يا رسول اﷲ من قتل في سبيل اﷲ قال ان شهداء امتی اِذا لقليل من قتل في سبيل اﷲ فهو شهيد و المتردي شهيد و النفساء شهيد و الغرق شهيد.

زاد الحلوانی والسل شهيد و الحريق شهيد و الغريب شهيد.

’’عبد الملک بن ہارون بن عنترہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اندر کس کو شہید شمار کرتے ہو؟ ہم نے کہا یا رسول اﷲ! جو اﷲ کی راہ میں قتل ہو جائے، فرمایا: اس طرح تو میری امت کے بہت کم شہید ہونگے۔ جو اﷲ کی راہ میں قتل ہو جائے وہ بھی شہید ہے، جو (کہیں سے) گِر کر (یا اس کے اوپر کوئی چیز گِر کر) مر جائے وہ بھی شہید ہے، زچگی میں مر جانے والی عورت بھی شہید ہے اور ڈوب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔

حلوانی نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ تپ دق کے مرض اور سفر میں مرنے والا بھی شہید ہے۔‘‘

هيثمي، مجمع الزوائد، 5: 301، دار الريان للراث / دار الکتاب، بيروت، القاهرة

شہید کی تعریف

فقہاء کے ہاں شہید کی تعریف یہ ہے کہ:

من قتله اهل الحرب و البغی و قطاع الطريق او وجد في معرکة و به جرح او يخرج الدم من عينه او اذنه او جوفه او به اثر الحرق او وطئته دابة العدوّ و هو راکبها او سائقها او کدمته او صدمته بيدها او برجلها او نفروا دابيه بضرب او زجر فقتلته او طعنوه فالقوه في ماء او نار او رموه من سور او اسقطوا عليه حائطا او رموا نارا فينا او هبت بها ريح الينا او جعلوها في طرف خشب راسها عندنا او ارسلوا اليناما فاحترق او غرق مسلم او قتله مسلم ظلماً ولم تجب به دية ... ومن قتل مد افع عن نفسه او ماله او عن المسلين او اهل الذمة بای آلة قتل بحديد او حجر او خشب فهو شهيد.

’’جسے حربی کافر، باغی اور راہزنوں نے قتل کیا، یا میدان جنگ میں پایا گیا اور اس پر زخم تھے، یا اس کی آنکھ، کان یا پیٹ سے خون بہہ رہا تھا، یا جسم پر جلنے کا نشان تھا یا دشمن کے جانور (سواری) نے اسے روندا، یا سوار تھا یا اپنی سواری کو ہانک رہا تھا یا جانور نے کاٹا یا جانور نے روند ڈالا یا مارنے (ڈانٹنے) سے جانور بدکا، بھاگا اور اسے مار ڈالا یا کسی کو نیزہ مار کر پانی یا آگ میں پھینک کر جلا ڈالا یا جانور کو آندھی ہماری طرف لے آئی، یا لکڑی جلا کر ہماری طرف پھینک دی اور آدمی جل گیا ، یا کسی مسلمان نے ڈبو دیا ، یا ظلم سے مسلمان نے قتل کر دیا اور اس قتل سے قاتل پر دیت واجب نہ ہوئی۔ یونہی جو شخص اپنی جان، مال بچاتے ہوئے قتل ہو گیا، یا مسلمان کی یا ذمیوں (دار الاسلام میں رہنے والے غیر مسلم) حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا، کسی بھی آلہ سے لوہا ہو یا پتھر یا لکڑی، وہ شہید ہے۔‘‘

الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية المعروف فتاوی عالمگيری، 1: 167، 168، دار الفکر، بيروت

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو شخص حادثاتی موت مر گیا، موذی و مہلک بیماری سے مر گیا، دوسرے کی جان و مال و عزت یا اپنی جان و مال و عزت کو بچاتے قتل ہو یا جس طریقہ سے بھی بے گناہ قتل ہو شہید ہے۔

قاتل کا آپ کے ہاتھ سے زخمی ہونا ایسا معاملہ ہے جس میں انسان کسی کے حملے کا دفاع کرتا ہے اور دفاع کا حق دنیا کے ہر قانون میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ قاتل کو شرعاً اور قانوناً سزا دینے کی مجاز عدالت ہے۔ اگر آپ قانون ہاتھ میں لیں گے تو قانون کی نظر میں آپ بھی مجرم قرار پائیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری