جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
امام مالک، امام شافعی، اور امام داؤد زہری علیہم الرحمہ کا قول ہے کہ ہر شے کا سایہ اصلی جب اس کے مثل کے برابر ہو جائے تو نماز ظہر کا وقت ختم اور عصر کا شروع ہو جاتا ہے، صاحبین امام ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے مطابق ہر چیز کا سایہ اس کے دومثل ہونے سے عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔
ابن رشد، بداية المجتهد ونهاية المقتصد، 1: 68، 69، باکستان، لاهور: المکتبة العلمية
مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ نمازِ عصر کے وقت کے تعین میں احناف میں بھی اختلاف ہے۔ امام اعظم کے نزدیک شے کا سایہ اصلی جب دو مثل ہونے پر نماز عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سایہ ہونے پر نماز عصر کے وقت کا آغاز ہوتا ہے۔ شوافع کا موقف بھی صاحبین والا ہے۔ اس لیے آپ شوافع کے اوقات کے مطابق عصر ادا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اوقاتِ نماز علماء احناف کے بھی ایک طبقے کے موقف کے مطابق درست ہیں۔
إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا.
بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔
النساء، 4: 103
نمازیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان پر مقررہ اوقات میں فرض کیں ہیں اور ان اوقات کی وضاحت احادیث مبارکہ میں بیان کر دی گئی ہے۔ اسی طرح نمازِ جمعہ کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِيَّ کَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔
بخاري، الصحیح، 1: 307، رقم: 862، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
لہٰذا آپ جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اگر وہاں ساڑھے گیارہ بجے (11:30) سورج ڈھل جاتا ہے تو پہلی آذان کے بعد آپ سنتیں ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر سورج اس کے بعد ڈھلتا ہے تو آپ بعد میں ادا کریں۔ کیونکہ وقت سے پہلے نماز ادا نہیں ہوتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔