نماز عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟


سوال نمبر:4268
السلام علیکم مفتی صاحب! میں نماز سے متعلق چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ (1)میں‌ متحدہ عرب امارات میں‌ رہ رہا ہوں، یہاں‌ نمازِ‌ عصر شافعی یا سلفی مکتبِ‌ فکر کے مطابق بہت جلدی ادا کر دی جاتی ہے۔ کیا مجھے جماعت کے ساتھ اسی وقت میں نماز عصر ادا کرنی چاہیے یا حنفی فقہ کے مطابق وقت شروع ہونے کے بعد گھر میں‌ ادا کرنی چاہیے؟ (2)نمازِ‌ جمعہ کی پہلی آزان ساڑھے گیارہ 11:30 بجے ہو جاتی ہے، جبکہ خطبہ سوا بارہ 12:15 بجے شروع ہوتا ہے‘ مجھے پہلی سنتیں کب ادا کرنی چاہیے؟ (3)یہاں رمضان میں نمازِ‌ تراویح‌ کے ساتھ وتر ادا کیے جاتے ہیں مگر ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی دو رکعت الگ ادا کی جاتی ہیں جس کے بعد ایک رکعت الگ ادا کی جاتی ہے جس میں دعا وغیرہ پڑھی جاتی ہے، کیا میں جماعت کی بجائے اپنے حنفی انداز میں‌ الگ وتر ادا کرسکتا ہوں۔

  • سائل: کاشف ممتازمقام: متحدہ عرب امارات
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2017ء

زمرہ: نماز  |  نماز عصر  |  نماز جمعہ  |  نماز وتر

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. نمازِ ظہر کے اختتام اور نمازِ عصر کے آغاز کے اوقات کی تعیین میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ابن رُشد فرماتے ہیں:

امام مالک، امام شافعی، اور امام داؤد زہری علیہم الرحمہ کا قول ہے کہ ہر شے کا سایہ اصلی جب اس کے مثل کے برابر ہو جائے تو نماز ظہر کا وقت ختم اور عصر کا شروع ہو جاتا ہے، صاحبین امام ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے مطابق ہر چیز کا سایہ اس کے دومثل ہونے سے عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔

ابن رشد، بداية المجتهد ونهاية المقتصد، 1: 68، 69، باکستان، لاهور: المکتبة العلمية

مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ نمازِ عصر کے وقت کے تعین میں احناف میں بھی اختلاف ہے۔ امام اعظم کے نزدیک شے کا سایہ اصلی جب دو مثل ہونے پر نماز عصر کا وقت شروع ہوتا ہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سایہ ہونے پر نماز عصر کے وقت کا آغاز ہوتا ہے۔ شوافع کا موقف بھی صاحبین والا ہے۔ اس لیے آپ شوافع کے اوقات کے مطابق عصر ادا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اوقاتِ نماز علماء احناف کے بھی ایک طبقے کے موقف کے مطابق درست ہیں۔

  1. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا.

بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔

النساء، 4: 103

نمازیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان پر مقررہ اوقات میں فرض کیں ہیں اور ان اوقات کی وضاحت احادیث مبارکہ میں بیان کر دی گئی ہے۔ اسی طرح نمازِ جمعہ کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِيَّ کَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔

بخاري، الصحیح، 1: 307، رقم: 862، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

لہٰذا آپ جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اگر وہاں ساڑھے گیارہ بجے (11:30) سورج ڈھل جاتا ہے تو پہلی آذان کے بعد آپ سنتیں ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر سورج اس کے بعد ڈھلتا ہے تو آپ بعد میں ادا کریں۔ کیونکہ وقت سے پہلے نماز ادا نہیں ہوتی۔

  1. آپ نمازِ وتر اپنے فقہی مسلک کے طریقے کے مطابق ادا کرسکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری