جواب:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا.
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو۔
الْأَحْزَاب، 33: 49
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں ’تَمَسُّوهُنَّ‘ سے مراد ’خلوتِ صحیحہ‘ ہے۔ خلوتِ صحیحہ نکاح کے بعد میاں بیوی کی ایسی ملاقات کو کہا جاتا ہے جس میں مباشرت کے لیے کوئی امر مانع نہ ہو۔ اگر خلوت صحیحہ سے پہلے شوہر طلاق دے دی جائے تو عورت پر کوئی عدت نہیں ہے۔ فقہائے احناف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خلوتِ صحیحہ میسر آنے سے پہلے الگ الگ الفاظ میں طلاق دی گئی تو پہلی بار لفظِ طلاق بولنے سے طلاقِ بائن ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دی گئی طلاقیں فضول ہوگئیں۔
فإن فرق الطلاق بانت بالأولی ولم تقع الثانية والثالثه وذلک مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن کل واحد إيقاع علی حدة... فتقع الأولی في الحال فتصادفها الثانية وهي مبانة.
’’اگر غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دیں، پہلی سے بائن ہو جائے گی، دوسری اور تیسری واقع نہ ہوگی مثلاً یوں کہے تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق کہ ہر ایک میں طلاق واقع کر رہا ہے۔۔۔ پہلی طلاق فوراً واقع ہو جائے گی اب دوسری طلاق جب دی تو نکاح ٹوٹ چکا تھا لہٰذا باقی فضول ہیں‘‘۔
اگر واقعتاً خلوتِ صحیحہ ثابت نہیں ہوئی تو طلاق سے طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے۔ اگر وہ دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو تجدیدِ نکاح کر کے رجوع کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر خلوتِ صحیحہ ثابت ہو جاتی ہے تو وہ وطی کے قائم مقام شمار ہوگی، اگرچہ مباشرت نہ ہی کی ہو۔ اس صورت میں طلاقِ رجعی کے بعد دورانِ عدت ہی مزید طلاقیں دینے سے ان کا نکاح ختم ہوچکا اور طلاقِ مغلظہ واقع ہوگئی۔ اس صورت میں ان کا رجوع ممکن نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔