جواب:
عربی ضرب المثل ہے کہ:
و ما آفة الاخبار الا رواتها.
خبروں کی آفت ان کے راوی ہیں۔
یہ ضرب المثل حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ کسی بھی خبر کی ثقاہت کا دار و مدار اس کے بیان کرنے والے کے کردار پر ہوتا ہے۔ اگر راوی صادق ہے تو اس کی خبر بھی سچی ہوگی، اور اگر راوی کاذب ہے تو اس کی روایت بھی غیرثقہ ہوگی۔ علمِ حدیث میں حدیث کے متن تک پہنچانے والے ناموں کے سلسلے کو سند یا سلسلہ رواۃ کہا جاتا ہے۔ حدیث کے صحیح، حسن اور ضعیف ہونے کا معیار انہی راویوں کی ثقاہت پر ہوتا ہے۔ حدیث کی سند میں راوی جتنے ثقہ ہوں گے حدیث بھی اتنے ہی بلند درجے کی ہوگی۔ علم الحدیث کی اصطلاحات میں سب سے اعلیٰ و بلند معیار کی حدیث الصحيح ہے۔الصحیح سے مراد وہ حدیث ہے جس میں قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور محفوظ رکھنے والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے اور یہ سلسلہ آخر سند تک ایسے ہی چلا جاتا ہے۔ اس حدیث میں دیگر قابل اعتماد احادیث کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اور خامی پائی جاتی ہے۔ حدیث میں ضعف اس کے راوی کی کمزوری کی وجہ سے آتا ہے، متنِ حدیث کی وجہ سے نہیں۔ اگر متن درست نہ ہو تو وہ حدیث نہیں ہوتی من گھڑت بات کہلاتی ہے۔
بسا اوقات کسی حدیث کی ایک سے زیادہ روایات ہوتی ہیں۔ کسی محدث کے پاس ایک روایت پہنچتی ہے تو کسی کے پاس دوسری، ایک کی سلسلہ رواۃ کی جرح و تعدیل یا چھان پھٹک کے بعد نتیجہ نکلتا ہے کہ ان میں کوئی ایک یا زیادہ راوی صحیح کی شرائط پر پورا نہیں اترتے تو جرح و تعدیل کرنے والا محدث اس حدیث کو ضعیف یا حسن قرار دیتا ہے۔ جب وہی حدیث کسی دوسری سند سے کسی محدث کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی جرح و تعدیل کے بعد صحیح کے درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ دونوں محدثین اپنی تحقیق کے مطابق پوری ایمانداری سے حدیث پر حکم لگاتے ہیں۔ محدیثن کے ہاں راویوں کے احوال کی چھان پھٹک کے کچھ متفقہ اصول ہیں جو امت مسلمہ میں ہمیشہ رائج رہے ہیں۔ اسی طرح تعدیل کرنے والوں کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
اگر تم اپنے آپ کو سمجھدار، سچا، دیانت دار اور پرہیز گار سمجھتے ہو تو یہ کام کرنے کی جرأت کرو، اور اگر ایسا نہیں تو بلاوجہ پریشان مت ہو، اگر خواہش نفس، تعصب تنگ نظری اور مذہب پرستی غالب ہے تو براہ مہربانی اس کام کے لئے تکلیف نہ اٹھاؤ۔
مذکورہ بالا شروط جرح وتعدیل درج ذیل کتابوں سے نقل کی گئی ہیں:
لہٰذا مسلکی تعصب اور ضد بازی کی بناء پر کی گئی جرح و تعدیل قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔