جواب:
نابالغ بچوں کا نکاح کرنا، قرآن و حدیث اور ملکی قانون کے بالکل منافی ہے کیونکہ قرآن مجید تو صحت نکاح کے لئے بالغ ہونا شرط قرار دیتا ہے:
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْهِمْ اَمْوَالَهُم.
اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
سورة النساء، 4: 6
اس آیت کریمہ میں نابالغ و نادان بچوں کو ان کا اپنا مال بھی اس بنا پر سپرد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اسے ضائع کر دیں گے، تو پھر ان کے نکاح کا فیصلہ کیونکر جائز ہو گا، جس سے ان کا مستقبل وابستہ ہے؟ حدیث پاک ہے:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَارَسُولَ اﷲِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنوای لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول اﷲ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔
احناف جن کے نزدیک نابالغ لڑکے لڑکیوں کا نکاح جائز ہے، تاہم اگر بعد میں باپ کی لاپرواہی، حماقت یا لالچ ثابت ہو جائے تو نکاح نہیں ہوگا۔ بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ علامہ محمد بن علی بن محمد علاء الدین الحصنی نے الدر المختار میں لکھا ہے:
لم يعرف منهما سوء الاختيار مجانة و فسقًا و ان عرف لا يصح النکاح اتفاقًا.
باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیار بلوغ ختم اس وقت ہو گا جب ان سے غلط فیصلہ نہ ہو لاپرواہی یا فسق کی وجہ سے اور اگر غلط فیصلہ معلوم ہو جائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے۔
حصکفي، الدر المختار، 3: 66، 67، بيروت، لبنان: دارالفکر
فقہا مزید وضاحت فرماتے ہیں:
أن المراد بالأب من ليس بسکران ولا عرف بسوء الاختيار.
باپ سے مراد وہ جو نشہ میں بھی نہ ہو اور جو غلط فیصلہ کرنے والا بھی نہ ہو۔
بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو حق ہوتا ہے کہ وہ نابالغ عمر میں کئے ہوئے نکاح کا انکار کر دے اور اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر لے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:
واذا أدرکت بالحيض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤية الدم.
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: ۲86، بيروت، لبنان: دارالفکر
ہمارے نزدیک تو مذکورہ بالا دلائل کی رو سے نابالغوں کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا مگر جن کے ہاں منعقد ہوتا بھی ہے اُن کے مطابق لڑکی کو بالغ ہونے پر حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ بچپن کے کئے ہوئے نکاح کو برقرار رکھے یا ردّ کر دے۔ اگر لڑکی ردّ کر دے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہ لڑکی اس نکاح کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو رضا مندی کا اظہار کر دے۔ اگر ردّ کرنا چاہتی ہے تو پھر بھی اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کر سکتی ہے۔ آپ پیغام بھیج کر اس کی رائے معلوم کر سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔