ایامِ نفاس میں انجکشن کے ذریعے خون روکنے کا حکم کیا؟


سوال نمبر:3973
السلام علیکم! کسی عورت نے بچے کو جنم دیا، جس کے بعد اسے چالیس دن نفاس کا خون آنا تھا، تاہم دس دن نفاس آیا پھر اُس نے انجکشن کے ذریعے نفاس کو دس دن تک روک لیا۔ پھر اسکو خون آنے لگا۔ اب جن ایام میں خون کو روکا گیا تھا کیا یہ نفاس شمار کیے جائیں گے یا نہیں؟ نیز ان ایام میں اگر روزہ رکھ لیاجائے تو کیا درست ہوگا؟ واضح رہے کہ طبعی طور پر خون رکنے کا حکم معلوم ہے، انجکشن کے ذریعے بند کرنے کا کیا حکم ہے؟ راہنمائی کر دیں۔ شکریہ

  • سائل: عبداللہمقام: کوئٹہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 23 جولائی 2016ء

زمرہ: نفاس

جواب:

عبدالرحمان الجزیری اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’الفقہ علیٰ مذاہب الاربعہ‘ میں نفاس سے متعلق احناف کا مؤقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان النقاء المتخلل بين دماء النفاس يعتبر نفاساً، وان بلغت مدته خمسه عشر يوماً فاکثر.

نقائے متخلل (دورانِ نفاس وقفہ) ایامِ نفاس میں ہی شمار ہوگا، اگرچہ اس کی مدت پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو۔

الجزيری، عبدالرحمٰن، کتاب الفقه علیٰ مذاهب الاربعة، 1: 132، دار احياء تراث العربی، بيروت، لبنان

لہٰذا نفاس کی مدت (چالیس دن) کے دوران خون کے بہنے میں وقفہ آجائے، تو وقفے کے دنوں کو بھی نفاس ہی شمار کیا جائے گا، خواہ قدرتی طور پر خون آنا بند ہوجائے یا مصنوعی طریقے سے بند کیا جائے۔ اس دوران عورت نماز، روزہ اور تلاوت وغیرہ نہیں کرے گی۔ اگر کسی عورت کی عادت معلوم ہو کہ اسے نفاس کا خون کتنے ایام تک آتا ہے، تو وہ انہی ایام کے مطابق خون بند ہونے پر پاکیزگی اختیار کرے گی اور عبادات بجا لائے گی۔

اگر عورت کی صحت کے پیش نظر کوئی مستند ڈاکٹر حیض و نفاس کا خون بند کرنے کی تجویز دیتا ہے تو شریعت میں کوئی ممانعت نہیں۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ عورت کی صحت پر اس کے مضر اثرات نہیں ہوں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری