جواب:
اگر کوئی مسلمان کسی جائز عمل کے لیے نکلا ہو اور حادثاتی طور پر ڈوب جانے کی صورت میں وہ شہید کے حکم میں داخل ہے، کیونکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اﷲِ.
’’شہداء پانچ طرح کے ہیں: جو طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) سے مر گیا، پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک وغیرہ) سے مر گیا، جو ڈوب کر (دریا میں، جھیل میں، سمندر میں، سیلاب میں، گلیشئرز میں، کنوئیں یا نہر یا ڈیم میں) مر گیا، جو (مکان وغیرہ کی چھت، پہاڑی تودے، گلیشئر، گاڑی کے نیچے، عمارت کے نیچے) دب کر مر گیا اور جو اﷲ کی راہ میں (دشمنوں، باغیوں، ڈاکؤوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔‘‘
اس کے برعکس چوری ڈاکے، ڈاکے، قتل یا کسی برے عمل کی نیت سے نکلنے والا ڈوب کر بھی مر جائے تو وہ شہید کے حکم میں داخل نہیں ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔