جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ.
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔
البقرة، 2: 144
رہا آپ کا یہ سوال کہ خانہ کعبہ کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنایا گیا؟ تو اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرما دیا ہے، ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.
اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔
البقرة، 2: 143
درج بالا آیت سے معلوم ہوا کہ دورانِ نماز قبلہ تبدیل فرما کر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی اطاعت کو پرکھا کہ کون میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر جاتا ہے اور کون اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کی موجودگی میں بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی یہی علت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی ہے۔
خانہ کعبہ کی اولین تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ.
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
البقرة، 2: 128، 129
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کے مطابق بیت اللہ کو اہلِ اسلام کا قبلہ مقرر فرمایا۔
بیت اللہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرنے کا باقاعدہ حکم تو امتِ محمدیہ کے لیے ہی آیا ہے۔ سابقہ امتوں کے لیے بیت المقدس ہی قبلہ کا درجہ رکھتا تھا۔
خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تاریخ جاننے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔