جواب:
نماز کی اِمامت بہت فضیلت اور عظمت والا عمل ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ بروزِ حشر تین طرح کے لوگ کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے، ان میں سے ایک گروہ اُن لوگوں کا ہوگا جو اپنی قوم کے امام رہے ہوں گے اور قوم کے لوگ ان سے راضی تھے۔ امام کے اوصاف کے حوالے سے درج ذیلِ احادیثِ مبارکہ سے راہنمائی ملتی ہے:
عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً فَظَنَّ أَنَّا اشْتَقْنَا أَهْلَنَا وَسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَکْنَا فِي أَهْلِنَا فَأَخْبَرْنَاهُ وَکَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا فَقَالَ ارْجِعُوا إِلَی أَهْلِيکُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَصَلُّوا کَمَا رَأَيْتُمُونِي اُصَلِّي
’’حضرت سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم چند ہم عمر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس روز تک آپ ﷺ کے پاس قیام کیا۔ جب آپ ﷺ نے یہ محسوس فرمایا کہ ہم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے اُن گھر والوں کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم چھوڑ آئے تھے۔ چنانچہ ہم نے سب کچھ عرض کردیا۔ چونکہ آپ ﷺ شفیق و رحیم تھے اس لیے فرمایا: اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ۔ انہیں دین سکھاؤ اور اس پر عمل کرنے کا حکم دو اور نماز اس طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
آپ ﷺ نے مزید فرمایا:
وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُوَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ ثُمَّ لِيَوُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ
’’جب نماز کا وقت ہوا کرے تو چاہیے کہ تم میں سے ایک اذان کہہ دیا کرے پھر جو تم میں سب سے بڑا ہو اسے چاہیے کہ تمہارا امام بن جایا کرے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا کَانُوا ثَـلَاثَةً فَلْيَوُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ وَأَحَقُّهُمْ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَوُهُمْ
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب تین نمازی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرے اور امام بننے کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جسے قرآن کا زیادہ علم ہو۔‘‘
درج ذیل حدیث مبارکہ میں مزید وضاحت پائی جاتی ہے:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَوُهُمْ لِکِتَابِ اللهِ فَإِنْ کَانُوا فِي الْقِرَائَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ کَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ کَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وَلَا يَوُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَی تَکْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ مَکَانَ سِلْمًا سِنًّا.
’’حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قوم کی امامت وہ شخص کرے جس کو سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو، اگر قرآن مجید کے علم میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرے جس کو حدیث کا سب سے زیادہ علم ہو اور اگر علم حدیث میں سب برابر ہوں تو جس شخص نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو اور کوئی شخص کسی مقرر شدہ امام کے ہوتے ہوئے امامت نہ کرائے اور کسی کی مسند پر بلا اجازت نہ بیٹھے۔‘‘
معلوم ہوا داڑھی امامت کے لیے شرط نہیں ہے، لیکن داڑھی رکھنا شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ رکھنا روحِ اسلام کے خلاف ہے۔ اس لیے داڑھی مونڈے امام کو مقتدی برضا ورغبت پسند نہیں کریں گے، تاہم کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قبضہ سے کم داڑھی والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔