داڑھی کا خط بنانے کا کیا طریقہ ہے؟


سوال نمبر:3378
السلام علیکم! داڑھی کا خط بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ براہِ مہربانی تفصیل کے ساتھ مع حوالہ جات وضاحت فرما دیں۔

  • سائل: سید عمیر نواز قادریمقام: گجرات، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 06 اکتوبر 2016ء

زمرہ: داڑھی کی شرعی حیثیت

جواب:

عربی میں ’’اللَحْی‘‘ جبڑے کو کہتے ہیں۔ داڑھی جبڑے پر پیدا ہوتی ہے اس لئے داڑھی کو عربی میں ’’لحية‘‘ کہتے ہیں۔ المعجم الوسيط اس کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ:

اللحي: منبت اللحية من الإنسان وغيره وهما لحيان والعظمان اللذان فيهما الأسنان.

’’اللحی: انسان وغیرہ کی داڑھی اگنے کی جگہ (جبڑے) اور یہ دو جبڑے اور دو ہڈیاں ہیں جن میں دانت ہیں۔‘‘

ابراهيم مصطفیٰ، المعجم الوسيط، 2: 820، دار الدعوة

اور اَئمہ لغت نے داڑھی کی تعریف یوں کی ہے:

اللِّحْيَةُ شَعَرَ الخَدَّيْنِ والذقْنِ.

’’رخساروں اور ٹھوڑی کے بالوں کو ’ لحیہ ‘ کہتے ہیں۔‘‘

  1. ابن منظور، لسان العرب، 15: 243، بيروت: دار صادر
  2. الزبيدي، تاج العروس، 39: 442، دار الهداية
  3. ابراهيم مصطفیٰ، المعجم الوسيط، 2: 820
  4. محمد يعقوب، القاموس المحيط، 2: 1714، بيروت: مؤسسة السالة

لہٰذا دانتوں والی ہڈی پر اُگے ہوئے بالوں کے علاوہ باقی بالوں کو صاف کر سکتے ہیں تاکہ داڑھی چہرے کے حسن وجمال میں اضافہ کر سکے اور اس کے ذریعے مسلمان مرد زینت حاصل کریں۔ قرآن مجید میں ہے:

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَo

اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

الاعراف، 7: 31

علامہ قرطبی اور دیگر مفسرین کرام مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کرتے ہیں:

إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ.

’’ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے حسن کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘

مسلم، الصحيح، 1: 93، رقم: 91، دار احياء، التراث العرب

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنی لحیہ مبارکہ کو سنوارتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی داڑھی سنوارنے کی طرف رغبت دلائی جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنِ الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي قُحَافَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أُتِيَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِحْيَتُهُ قَدِ انْتَشَرَتْ فَقَالَ: «لَوْ أَخَذْتُمْ» وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى نَوَاحِي لِحْيَتِهِ.

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ہیثم رضی اللہ عنہ اور وہ حضرت ابو قحافہ (والد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ جب ان کو (فتح مکہ کے موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو ان کی داڑھی بکھری ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے ان کی اطراف میں پھیلی ہوئی داڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (خوب ہوتا) اگر تم اسے کاٹ دیتے۔

امام أبو يوسف، کتاب الآثار،1: 234، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

علی بن سلطان محمد القاری حنفی رحمہ اﷲ، شرح مسند ابو حنیفہ میں لکھتے ہیں:

فالتقدير: لو أخذتم نواحي لحية طولا وعرضا، وترکتم قدر المستحب وهو مقدار القبضة، وهي الحد المتوسط بين الطرفين امذمومين من إرسالها مطلقاً، ومن حلقها وقصهاعلی وجه استئصالها.

(حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو جو داڑھی کاٹنے کا حکم دیا تھا) اس میں حکماً یہ ارشاد ہے کہ اگر تم داڑھی کو طولاً عرضاً اور اس قدر مستحب چھوڑ دو (تو بہتر ہے) اور وہ مستحب قبضہ کی مقدار ہے اور یہ مطلقاً داڑھی چھوڑنے یا منڈوانے اور جڑ سے کاٹنے کی افراط اور تفریط والی مذموم جانبوں میں حد متوسط ہے۔

ملا علي قاري، شرح مسند أبي حنيفة: 423، 424، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

لہٰذا جبڑوں اور ٹھوڑی پر اگنے والے بال داڑھی شامل ہیں، اس سے زائد جو بال رخسار اور گردن وغیرہ پر ہوں تو ان کو صاف کرنا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری