جواب:
اگر لڑکی عاقل، بالغ اور سمجھدار تھی اور اس نے بغیر کسی زور زبردستی کے نکاح قبول کیا، تو نکاح منعقد ہوگیا۔ اس کے برعکس اگر لڑکی نے نکاح قبول ہی نہیں کیا اور مسلسل انکار کرتی رہی تو نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔
پہلی صورت میں، جس میں ایجاب و قبول کے بعد نکاح قائم ہوا، اگر لڑکی کو خلوتِ صحیحہ میسر آئی خواہ تیس (30) دن تک تعلقات قائم نہ بھی ہوئے تو طلاق یا عدالتی فیصلے کے بعد عدت گزارنا ضروری ہے۔ اگر اس نے عدت کے ایام گزرنے کے بعد نکاح کیا ہے تو نکاح درست ہے، ورنہ عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کریں۔
صورتِ دوم جس میں نکاح قائم ہی نہیں ہوا تھا، اس میں طلاق کی ضرورت ہے نہ تنسیخِ نکاح کی، اور نہ ہی عدت کے ایام پورے کرنے کی بلکہ تیس دن بعد کیا ہوا نکاح بھی درست شمار ہوگا۔ کیونکہ پہلے والا نکاح قائم ہی نہیں ہوا تو طلاق اور عدت کیسی؟
اپنے سوال میں آپ نے ایک اور بات کی کہ ہائی کورٹ نے آپ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، مگر اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ہائی کورٹ نے کس معاملے میں آپ کے حق میں فیصلہ کیا ہے؟ اگر پہلا لڑکا شرابی یا حقِ زوجیت ادا کرنے سے قاصر تھا تو لڑکی اس کا کیس مسلم فیملی کورٹ میں لے جاکر تنسیخِ نکاح کروا سکتی تھی۔ اس میں ہائی کورٹ کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اس معاملے کی وضاحت آپ کو کرنی چاہیے تھی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔