جواب:
جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کارفرما ہیں اُسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب وتاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ اِنسان کے ’’اَحسن تقویم‘‘ کی شان کے ساتھ منصہ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اُس کی زندگی ایک اِرتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء (chemical evolution) کا دَور ہے۔ جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دِلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے۔
قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم وبیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:
کرۂ ارض پر تخلیقِ انسانی کے آغاز کے لئے خمیرِ بشریت اپنے کیمیائی اِرتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لئے کن کن تغیرات سے نبرد آزماء ہوا اور بالآخر کس طرح اِس لائق ہوا کہ اُس سے حضرتِ اِنسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اُسے خلافت ونیابتِ الٰہیہ کے عالیشان منصب سے سرفراز کیا جائے! اُس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا مراحل کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اِن اِرتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذِکر کیا ہے اُسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحبِ علم اِن جزئیات وتفصیلات کے بیان میں اِختلاف کرسکتا ہے۔ جو کچھ مطالعۂ قرآن سے ہم پر منکشف ہوا ہم نے بلاتامل عرض کر دیا ہے۔ البتہ اِس قدر حقیقت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں مختلف اَلفاظ و اِصطلاحات کے اِستعمال سے کیمیائی اِرتقاء کے تصوّر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیرِ بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو چکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اُس سے باری تعالیٰ نے پہلے اِنسان کی تخلیق ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے اِرشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکرِ بشریت اِس طرح تشکیل دُوں گا۔ یہ تفصیلات قرآنِ مجید میں سورۃُ البقرہ، 2 : 30۔ 34، سورۃُالحجر، 15 : 26۔ 35، سورۃُالاعراف، 7 : 11۔ 16 اور دِیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
فرشتوں کا اِس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکرِ بشریت زمین میں خونریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اِسی طرح اِبلیس کا اِنکارِ سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی بشریت اور صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُون کا ذِکر کرنا وغیرہ، یہ سب اُمور اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اُن کی نظر اِنسان کی بشری تشکیل کے اِبتدائی اور دورانی مراحل پر تھی اور ایسا خیال وہ اُن اَجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے جن کا اِستعمال کسی نہ کسی شکل میں اُس پیکرِ خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی اَشیاء کی طرف دھیان کئے ہوئے تھے، اُن کی نظر مٹی کی اُس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزکّٰی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ ’سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ‘ سے تعبیر فرما رہا ہے۔ مٹی کی یہ جوہری حالت (سُلٰلَہ) کیمیائی تغیرات سے تزکیہ وتصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اِس قابل ہو چکی تھی کہ اُس میں روحِ اِلٰہیہ پھونکی جاتی اور نفخِ رُوح کے ذرِیعے اُس کے پیکر کو فیوضاتِ اِلٰہیہ کے اَخذوقبول اور اَنوار وتجلیاتِ ربانی کے اِنجذاب کے قابل بنا دیا جاتا۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO
پھر جب میں اُس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درُست حالت میں لا چُکوں اور اُس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) رُوح پھونک دُوں تو تم اُس کے لئے سجدے میں گر پڑنا
(الحجر، 15 : 29)
چنانچہ بشریتِ اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اُسے نفخِ رُوح کے ذرِیعے عَلَّمَ آدَمَ الاسْمَاءَ كُلَّہَا (اﷲ نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے) کا مِصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائک ہوا، اور ابلیس سجدہ نہ کر کے راندہ درگاہ ہوا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔