معیوب امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3579
اسلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جسے وہ بدعہدی اور جھوٹ‌ کی وجہ سے پسند نہیں‌ کرتا، اس کے الگ جماعت کروانے کے بارے میں‌ کیا حکم ہے؟

  • سائل: غلام فرید قادریمقام: سیالکوٹ
  • تاریخ اشاعت: 21 اپریل 2015ء

زمرہ: نماز  |  امامت  |  شرائط امامت

جواب:

اگر تو سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر آپ امام مسجد کو بدعہدی اور جھوٹ کا مرتکب سمجھتے ہیں، تو بلاشبہ بغیر ثبوت کسی کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا درست نہیں۔ اگر واقعتاً وہ وعدہ خلافی اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں، تو انہیں سمجھایا جانا چاہیے کہ یہ عادت ان کے منصب کے خلاف ہے۔

بہرحال اگر امام بدعقیدہ نہ ہو تو اس کی اقتداء میں نماز ہوجائے گی، خواہ اس کی اپنی ہو یا نہ ہو۔ الگ جماعت کروانے کی ضرورت نہیں۔

اگر امام صحیح العقیدہ ہو یعنی انبیاء کرام، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء و صالحین کا گستاخ نہ ہو، چاہےگناہگار ہی ہو، اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:

عن ابی هرير قال قال رسول اﷲ الصلة المکتوبة واجبة خلف کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے لازم ہے، خواہ نیک ہو یا بد اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو‘‘۔

ابو داود، السنن، 1: 162، رقم: 594، دارالفکر

عن ابی هريرة قال قال رسول اﷲ الجهاد واجب عليکم مع کل امير برا کان او فاجرا والصلة واجبة عليکم خلف کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر والصلة واجبة علی کل مسلم برا کان او فاجرا و ان عمل الکبائر

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بدگو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے‘‘۔

  1. ابو داود، السنن، 3: 18، رقم: 2533
  2. بيهقی، السنن الکبری، 3: 121، رقم: 5۰83، مکتبة دار الباز مکة المکرمة

اگر سمجھانے کے باوجود وہ بدعہدی اور جھوٹ جیسی عادات سے باز نہیں آتا تو پھر بہتر ہے کہ اسے تبدیل کردیا جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری