جواب:
مسجد کے لغوی معنیٰ سجدہ کرنے کی جگہ کے ہیں۔
کفار و مشرکین اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبور کو قبلہ قرار دے کر اپنے اصلی قبلے سے انحراف اختیار کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے پیغمبروں کی قبروں کے جوار میں خدا کی عبادت کے بجائے اپنے پیغمبروں کی پرستش کر دی۔ اور کم از کم ان کو عبادت و پرستش میں خدا کا شریک سمجھتے۔ قبور کے جوار میں تصویر بنانے کا مقصد یہ تھا کہ قبر اور تصویر کو سجدہ کریں، اور وہ ان کا قبلہ قرار پائے۔ اسی لیے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بدترین مخلوق کہا اور ان پر لعنت فرمائی۔ یہ اور ایسی دیگر احادیث کفار و مشرکین کی مذمت میں وادر ہیں۔
اس کے برعکس اولیاءاللہ اور اﷲ تعالیٰ کے صالح بندوں کے مزار اور ان کے پاس مساجد تعمیر کرنا شرعاً جائز ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَكَذَلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لاَ رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
اور اس طرح ہم نے ان (اصحابِ کہف کے حال) پر ان لوگوں کو (جو چند صدیاں بعد کے تھے) مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ ﷲ کا وعدہ سچا ہے اور یہ (بھی) کہ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جب وہ (بستی والے) آپس میں ان کے معاملہ میں جھگڑا کرنے لگے (جب اصحابِ کہف وفات پاگئے) تو انہوں نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک عمارت (بطور یادگار) بنا دو، ان کا رب ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے خصوصی برکت حاصل کریں)
سورة کهف 18: 21
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین، آئمہ اور علماء کرام نے صالحین کے مزارات کے قرب و جوار میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عمارت بنانے کے جواز کا استنباط کیا ہے۔ تفسیر روح البیان میں علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
جب تین سو نو سال بعد اس زمانے کے لوگوں کو اصحاب کہف کا پتہ چلا تو ا ن کی تعظیم اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کے دو گروہ بن گئے: ایک گروہ نے کہا کہ ان کی قبروں پر عمارت بنائی جائے تاکہ ان مردان خدا کے آثار اور نام و نشان زندہ و تابندہ رہیں، دوسرا گروہ بولا کہ ان کی قبروں (غار کے اوپر) مسجد بنائیں۔ ’’مسجداً‘‘ سے مراد ہے کہ ’’يصلی فيه المسلمون ويتبرکون بمکانهم‘‘ یعنی لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت حاصل کریں۔
قرآن مجید نے دو باتوں کا ذکر فرمایا: اصحاب کہف کی قبور پر مقبرہ تعمیر کرنے کا مشورہ کرنا، اور ان کے قریب مسجد بنانا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افعال سابقہ شریعتوں میں بھی مرسوم تھے، اور قرآن نے بھی اسے بغیر تنقید کے نقل کیا۔ قرآن کا ان امور کو بغیر کسی تنقید کے نقل کرنا ان کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی فعل شرک ہو اور قرآن اشارتاً یا صراحتاً اس پر تنقید نہ کرے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اولیاءاللہ کی قبور پر مزارات اور ان کے قریب مسجد بنانا جائز ہے۔ مزاراتِ اولیاء شعائرﷲ ہیں اور اس سے برکتیں حاصل کرنا جائز ہے۔ مشرکین کی مذمت میں وادر احادیث کو مسلمانوں پر جسپاں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ صالحین کی قبور کو اپنا قبلہ نہ بناؤ، یا اہل قبور کو خدا کی عبادت میں شریک مت ٹھہراؤ۔ اس سے ہرگز صالحین اور باتقویٰ افراد کی قبور پر مسجد تعمیر کرنے کی حرمت کا فتویٰ صادر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کے زائرین نہ انہیں اپنا قبلہ مانتے ہیں اور نہ ہی ان کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ تو اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں، اور نماز ادا کرتے وقت کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اولیائےالٰہی کی قبور کے جوار میں مسجد بنانے کا سبب اس جگہ سے تبرک حاصل کرنا ہے، نہ کہ ان کو سجدہ کرنا۔
بخاری شریف کے جو نمبرز آپ نے دیے ہیں ان میں اس موضوع پر وارد کوئی حدیث نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔