السلام علیکم مفی صاحب! میرے کچھ سوالات ہیں براہ مہربانی ان کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔
جواب:
خیالات اور وسوسوں سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حدیث مبارکہ ہے:
عَنْ اَبِي هُرَیْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ إِنَّ اﷲَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ اَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ اَوْ تَتَکَلَّمْ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲتعالیٰ نے میری اُمت کے اُن خیالات کو معاف فرمادیا ہے جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک ان کے مطابق عمل یا کلام نہ کریں۔
خاص طور پر طلاق کے معاملہ میں امام بخاری رحمہ اﷲ نے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا ہے:
قَالَ قَتَادَةُ إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اگر دل میں طلاق دی (زبان سے کچھ نہ کہا) تو کچھ بھی نہیں ہے۔
لہٰذا صرف خیالات اور وسوسوں سے طلاق واقع نہیں ہوگی، جب تک شوہر منہ سے بول کر نہ کہے یا تحریراً طلاق نہ دے۔
حاملہ عورت کو طلاق دینا گناہ ہے، تاہم دورانِ حمل دی جانے والی طلاق واقع ہو جائے گی۔ اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔ اگر حامل عورت کو شوہر نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو وضع حمل سے قبل بغیر نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر بچہ پیدا ہو گیا تو رجوع کے لیے تجدیدِ نکاح (دوبارہ نکاح) کرنا لازم ہے۔ اگر تین طلاقیں دی ہیں تو رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔