شے کو دیکھے بغیر اس کی بیع کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3341
محترم السلام علیکم! میرا ایک دوست بڑے پیمانے پرجنس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہے۔ میں اس سے چھوٹے پیمانے پر جنس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہوں، کہ جو جنس میں اس سے خریدتا ہوں اس کی قیمت مارکیٹ کے مطابق اس کو ادا کر دیتا ہوں۔ میں خرید کردہ جنس عملی طور پر وہاں سے نہیں اٹھاتا ہوں، وہ اسی کے پاس رہتی ہے۔ میری جنس مخصوص نہیں ہوتی ہے کہ فلاں والی جنس میری ہے البتہ جو جنس اس کے پاس موجود ہوتی ہے وہ میرے کھاتے میں خرید کردہ جنس کی مقدار لکھ دیتا ہے۔ اس کے پاس روزانہ نئی جنس آتی رہتی ہے اور نئی پرانی مکس ہو کر منڈی میں جاتی رہتی ہے۔ کچھ جنس وہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے تاکہ بیلینس برقرار رہے۔ جب میری خرید کردہ جنس کی قیمت بڑھ جاتی ہے یا مجھے رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو میں اپنی خرید کردہ جنس اسے کہہ کر فروخت کر دیتا ہوں۔ عملی طور پر وہ جنس میرے پاس نہیں اسکے پاس ہی ہوتی ہے۔ اس جنس کے سارے نفع و نقصان کا میں خود ذمہ دار ہوتا ہوں۔ وہ مجھ سے اس خرید و فروخت کے بدلے کسی قسم کی کوئی اجرت وصول نہیں کرتا۔ کیا ایسا کاروبار شریعی طور پرجائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کا درست شریعی طریقہ کیا ہے۔ ‏

  • سائل: سکندر لودھیمقام: خوشاب
  • تاریخ اشاعت: 25 نومبر 2014ء

زمرہ: خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)  |  معاملات

جواب:

شریعت مطاہرہ کی رو سے آپ جو جنس خریدتے ہیں اس کا تعین کرنا ضروری ہے کہ آپ نے کون سی اور کتنی جنس خریدی ہے۔ جنس بےشک وہیں رکھی رہے مگر وہ آپ کے قبضے میں ہونی چاہیے، کہ آپ جب چاہیں اس کو مصرف میں لائیں، چاہیں بیچیں یا صدقہ کر سکیں۔ اس کی مقدار، قسم اور قیمت وغیرہ کا تعین واضح کرنا لازم ہے۔ صرف اسی صورت میں آپ اس کے نفع و نقصان کے مالک ہو سکتے ہیں۔ آپ کا دوست اس خرید و فروخت پر آپ سے اجرت وصول کرے یا نہ کرے، یہ اس کی مرضی اور صوابدید ہے۔ مگر جنس، اس کی مقدار، قسم اور قیمت کو معین کرنا ضروری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری