مقدس اوراق اور غلافوں کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے؟


سوال نمبر:3283
السلام علیکم! مقدس اوراق اور غلافوں کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے؟

  • سائل: محبتی مورزادو گورشانیمقام: جیکب آباد
  • تاریخ اشاعت: 16 جون 2014ء

زمرہ: معاشرت  |  متفرق مسائل

جواب:

حديث پاک ميں ہے:

حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَي عُثْمَانَ وَکَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّاْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَائَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُوْمِنِينَ أَدْرِکْ هَذِهِ الاُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْکِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَي فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَي حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْکِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَي عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اﷲِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْئٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاکْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّي إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَي حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَي کُلِّ اُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي کُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِن الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اﷲِ ٍصلیٰ الله عليه وآله وسلم يَقْرَاُ بِهَا فَالْتَمَسْنَهَا فَوَجَدْنَهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِي {مِنَ الْمُوْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَهَدُوا اﷲَ عَلَيْهِ} [الاحزاب ، 33: 23] فَأَلْحَقْنَهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ.

بخاري، الصحيح، 4: 1908، رقم: 4702، دار ابن کثير اليمامه بيروت
ترمذي، السنن، 5: 284، رقم: 3104، دار احياء التراث العربي بيروت
أبي يعلي، المسند، 1: 93، رقم: 92، دار المامون للتراث دمشق
ابن حبان، الصحيح، 10: 341، رقم: 4506، موسسه الرسالة بيروت

’’حضرت ابن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بيان ہے کہ (خلافت عثماني ميں) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہيں بتايا کہ حضرت حذيفہ بن اليمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اہل شام اور اہل اعراق کي معيت ميں ارمينيہ اور آذر بائيجان کي فتوحات حاصل کر رہے تھے تو امير المومنين حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کي خدمت ميں حاضر ہوئے کيونکہ انہيں شاميوں اور عراقيوں کي قرات ميں اختلاف نے تڑپا ديا تھا۔ چنانچہ حضرت حذيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض گزار ہوئے: اے امير المومنين! يہودونصاري کي طرح کتاب الٰہي ميں اختلاف کرنے سے پہلے اس امت کي دستگيري فرمائيے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضي اﷲ عنہا کو پيغام بھيجا کہ قرآن کريم کا جو اصل نسخہ آپ کے پاس محفوظ ہے وہ ہميں عنايت فرمائيے۔ ہم اسے واپس کرديں گے تو حضرت حفصہ رضي اﷲ عنہا نے وہ نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھيج ديا۔ سو انہوں نے حضرت زيد بن ثابت، حضرت عبداﷲ بن زبير، حضرت سعدبن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضي اﷲ عنہم کو حکم ديا تو انہوں نے اس کي نقليں کيں۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آخر الذکر تينوں قريشي حضرات سے فرمايا کہ جب تمہارے اور زيد بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درميان کسي لفظ ميں اختلاف واقع ہو تو اسے قريش کي زبان ميں لکھنا کيونکہ قرآن مجيد کا نزول ان کي زبان ميں ہواہے۔ چنانچہ انہوں نے ايسا ہي کيا اور اصل نسخہ حضرت حفصہ رضي اﷲ عنہا کو واپس کر ديا۔پھر نقل شدہ نسخوں سے ايک ايک نسخہ ہر علاقے ميں بھيج ديا گيا حکم ديا کہ ان کے خلاف جو کسي کے پاس قرآن کريم کا نسخہ ہو ، اسے جلا ديا جائے ۔ابن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خارجہ بن زيد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتايا اور انہوں نے حضرت زيد بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ قرآن کريم کو جمع کرتے وقت مجھے سورۃ الاحزاب کي ايک آيت نہيں مل رہي تھي حالانکہ وہ ميں نے رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کي زبان مبارک سے سني تھي۔ جب ہم نے اسے تلاش کيا تو حضرت خزيمہ بن ثابت انصاري رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ملي يعني: مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اﷲَ عَلَيهِ (الاحزاب33: 23) تو ہم نے جمع کردہ نسخہ کے اندر اس کي سورت کے مقام پر اسے لکھ ديا‘‘۔

ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے:

ألمصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن و دفنه أولي من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أونحو ذلک ويلحد له لانه لو شق و دفن يحتاج إلي أهالة التراب عليه وفي ذلک نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضاً. ألمصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار.

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوي الهندية، 5: 323، دار الفکر.

’’جب قرآن کريم پرانا ہوجائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکيزہ کپڑے ميں باندھ کر دفن کر ديا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسي ايسي جگہ رکھ ديا جائے جہاں اس پر نجاست وغيرہ پڑنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کيونکہ اگر سيدھا گڑھا کھودا اوراس ميں بوسيدہ قرآن دفن کر ديا تو اوپر مٹي ڈالنے کي ضرورت پڑے گي اور اس ميں ايک طرح کي بے ادبي ہے ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کريم تک مٹي نہ پہنچے تو يہ بھي اچھا ہے۔ قرآن کريم جب بوسيدہ ہو جائے اور اس سے قرات مشکل ہو جائے تو اسے آگ ميں نہ جلايا جائے‘‘۔

لہٰذا بہتر يہي ہے کہ بوسيدہ اوراق قرآن کريم کے ہوں يا حديث پاک کے يا کسي ديني کتاب کے جن ميں قرآن و حديث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلايا نہ جائے اور مذکورہ بالا طريقہ سے ان کو دفنا ديا جائے مگر اس خيال سے کہ آج کل دفنانے کے لئے محفوظ زمين کا ملنا مشکل ہے بالخصوص شہروں ميں نيز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنايا گيا ہے عين ممکن ہے کہ کوئي انسان لاعلمي ميں اس جگہ پر پيشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائيں دريا برد کرنے ميں بھي بے ادبي کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کي خاطر صحابہ کرام کي موجودگي ميں سيدنا عثمان غني رضي اﷲ عنہ نے قرآن کريم کے نسخوں کو جلوا ديا اور کسي صحابي نے اس پر انکار نہ کيا پس جلانے کے جواز پر جبکہ نيت قرآني تقدس کي حفاظت کرنا ہو معاذاللہ بے ادبي کرنا نہ ہو، صحابہ کرام کا اجماع ہوچکا ہے اسي لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے ميں جلانے سے منع فرمايا مگرجلانے پر کوئي سخت حکم نہ لگايا کہ اس کے جواز کي بنياد موجود تھي۔
ليکن دور حاضر ميں مقدس اوراق کو بے ادبي سے بچانے کا مسئلہ انتہائي پريشان کن اور تکليف دہ صورت حال اختيار کر چکا ہے۔ايسي صورت حال کہ جس سے بچنا قريب قريب ناممکن ہے۔لہٰذا جس حد تک ہو سکے بے ادبي سے بچنے کي کوشش کي جائے۔اس معاملہ ميں چند اقدامات عمل ميں لانے کي اشد ضرورت ہے جو درج ذيل ہيں:

  1. سب سے پہلے تو لوگوں ميں ان کي بے ادبي کے بارے ميں شعور پيدا کيا جائے تاکہ لوگ ان کا غلط استعمال نہ کريں۔

  2. جن جن جگہوں پر ان کا عام استعمال کرنا باعث بے ادبي ہے وہاں کوئي متبادل طريقہ کار اپنايا جائے۔

  3. مقصد حاصل کرنے کے بعد ان کو محفوظ کرنے کا بندو بست کيا جائے۔

  4. آج کل ان کو ندي نالے ، نہر يا دريا ميں نہ گِرايا جائے کيونکہ ايک تو پرنٹنگ ہونے کي وجہ سے سال بھر پاني بھي ميں پڑے رہنے سے الفاظ قائم رہتے ہيں اور دوسرا ندي نالے بھي گٹر ، جوہڑ اور غلاظت سے پُر ہيں۔ لہٰذا اوراق مقدسہ کو ان ميں ڈالنا بھي بے ادبي ہے۔ اس ليے بہتر حل يہ ہے کہ ان کو جمع کرکے پلانٹ کے ذريعے ان سے دوبارہ کاغذ، گتہ وغيرہ تيار کيا جائے تاکہ بے ادبي سے بھي بچ جائيں اور فائدہ بھي حاصل کيا جا سکے۔ اترنے والي سياہي کو دھوپ يا پلانٹ کے ذريعہ خشک کر ديا جائے۔

  5. چند مقامات پر پرانے بوسيدہ قرآن کريم کے نسخوں کو لاکھوں روپے لگا کر ان کي حرمت اور جلد بندي کر کے ان کو عمدہ الماريوں ميں رکھ کر محفوظ کيا جاتا ہے۔ ان نسخوں کو نہ کوئي پڑھتا ہے ، نہ ہاتھ لگاتا ہے۔ صرف نمائش کے ليے رکھے جاتے ہيں۔ نيت ميں خلوص ہو تو يہ کام بھي اجرو ثواب سے خالي نہيں۔ مگر اس کا امت کو فائدہ کيا ہے؟ يہ سواليہ نشان ہے اور رہے گا۔ کيونکہ اب لوگ خوشحال ہيں۔ ماشاءاﷲ عمدہ کاغذ ، رنگين طباعت، حسين جلديں، مضبوط پلاسٹک کور اور صحيح تر نسخے تلاوت کے ليے مفيد و مقبول ہيں۔ اس ليے اب ان قرآن محلات کو عمدہ لائبريريوں ميں بدل ديا جائے۔ قرآن و سنت کے جديد اور عمدہ نسخے ان ميں مہيا کئے جائيں۔ مختلف علماء کرام کے تراجم ہمراہ ہوں۔ معري بھي ہوں۔ قديم و جديد تفاسير و لغات وشروح بھي ہوں، تاريخ وسيرت کي معتمد عليہ کتب بھي ہوں اور ريسرچ کے جديد ترين ذرائع بھي بروئے کار لائے جائيں تا کہ علمي روشني پھيلے جہالت کے سائے نيست ونابود ہوں اور مخلوق خدا کي علمي پياس بجھنے کا سامان ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی