جواب:
اہلِ لغت کے ہاں رہن یعنی گروی کے لغوی و اصطلاحی (شرعی) معنیٰ و مفاہیم درج ذیل ہیں:
ما وضع عندک لينُوبَ مناب ما اخذ منک
گروی وہ چیز ہے جو تیرے پاس رکھی جائے تاکہ وہ اس شے کا قائم مقام ہو جائے جو تجھ سے لی گئی ہے۔
جعل عين مالية و ثيقة بدين لازم
کسی مالی چیز کو لازمی قرض کی ضمانت بنانا۔
سيد محمد مرتضی الحسنی الوسطی الزبيدی، تاج العروس من شرح جواهر القاموس، 9: 221، دار احياء التراث العربی. بیروت
رهن: الرَّهنُما وضع عند الانسان مما ينوب مناب ما اخذ منه, يقال: رَهنْتُ فلاناً دارًا رَهنًا وارْتَهنه اِذا اَخذه رَهناً
رہن: جو چیز کسی انسان کے پاس رکھی جائے اس چیز کے عوض جو اس سے لی گئی ہے، کہا جاتا ہے میں نے فلاں کے پاس مکان گروی رکھا ہے اور میں نے فلاں سے مکان گروی لیا ہے۔
علامه ابن منظور افريقی، لسان العرب، 5: 348، دار احياء التراث العربي بيروت
مَا يُوضَعُ وثِيقَة للدَّيْنِ ... حقيقة ذلک اَن يَدْفَعَ سِلْعة تَقْدِمَة فی ثَمَنِه فَتَجْعلَها رَهينَة لِاِتْمامِ ثَمَنِها.
قرض کی واپسی یقینی بنانے کیلئے کسی چیز کو بطور ضمانت قبضہ میں لینا۔۔۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے جس کی قیمت دَین (قرض) کے برابر یا زائد ہو تاکہ قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں وہ قرض کا معاوضہ ہو سکے (اور دائن [قرض دینے والے] کو مالی نقصان نہ ہو) ۔
المفردات في غريب القرآن: 204، طبع لهور
ابن الاثيرالجزری، النهية، 2: 285، طبع ايران
هو جعل الشيی محبوسًا بحق
حق وصول کرنے کیلئے کوئی چیز روک لینا (رہن کہلاتا ہے)
الدرالمختار، 6: 478، طبع کراچيی
هدايه، 4: 437، کتاب الرهن، طبع کراچی
شرعاً اس سے مراد ہے کہ مالی چیز کو روک رکھنا اُس حق (قرض) کے عوض جسے قرضدار سے وصول کرناممکن ہو۔
هو قول الرهن رهنت عندک هذا الشی بمالک علی دين
گروی رکھنے والے کا یوں کہنا کہ آپ کا مجھ پر جو قرض ہے اس کے بدلے میں یہ چیز میں نے آپ کے پاس گروی رکھی۔
علامه زين الدين ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، 8: 231، طبع کراچي
امام کاساني حنفي، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 6: 174، دار الکتاب العربي بيروت
فهو جعل عين لها قيمة مالية في نظر الشرع وثيقة بدين بحيث يمکن اخذ الدين او اخذ بعضه من تلک العين
جس چیز کی شرعاً مالی قیمت ہو اُسے قرض وصول کرنے کی دستاویز اور ضمانت قرار دینا تاکہ اس چیز سے پورا قرض یا اس کا کچھ حصہ وصول کرنا ممکن ہو۔
علامه عبدالرحمٰن الجزری، الفقه علی المذهب الاربعة، 2:319، طبع مصر
علامه شمس الدّين اَلسَّرْخَسِی، المبسوط، 11:63، طبع بیروت
وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِهنٌ مَّقْبُوْضَة
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو قرض دینے والے کے قبضہ میں کوئی چیز گروی رکھی جائے۔
البقرة، 2: 283
عن عائشة رضی اﷲ عنها ان النبی صلیٰ الله عليه وسلم اشتری طعامًا من يهودی اِلٰی اجل و رهنه دِرعًا من حديد
بخاري، م 256 ه، الصحيح، 2: 729، رقم: 1962، دار ابن کثير اليمامه بيروت، 1407 ه
مسلم، م 261 ه، الصحيح، 3: 1226، رقم: 1603، دار اِحياء التراث العربي بيروت
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔
عن عائشة رضی اﷲ عنها قالت: تُوُفّی رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وسلم و درعه مرهونة عند يهودی بثلاثين صاعًا من شعير
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی ذرع ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جَو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔
سفر یا حضر میں ایک شخص یا گروہ کو رقم یا جنس وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی دوسرے کے پاس وہ رقم یا جنس موجود ہے اور وہ ضرورت مند کو قرض دینا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی اپنی رقم کے تحفظ اور واپسی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے قرض لینے والے سے زمین، مکان،گاڑی یا اسلحہ وغیرہ لیتا ہے تاکہ اس کی رقم یا جنس ضائع نہ ہو جائے۔ قرض لینے والے کو ’مرتہن‘، دینے والے کو ’راہن‘، گروی رکھی گئی شے کو ’مرہونہ‘ اور اس معاہدہ کو ’رہن‘ یا ’رہان‘ کہتے ہیں۔ رہن کے تین ارکان ہیں:
فریقین یعنی راہن اور مرتہن
اشیا معاملہ، اس میں دو چیزیں شامل ہیں: شے مرہونہ، اور اس کے مقابلہ میں دی گئی رقم
الفاظ معاملہ (جو لین دین کے لیے استعمال کیے جائیں)
معاملہ رہن کے درست ہونے کی اہم ترین شرط یہ ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں معاملہ بیع کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یعنی کوئی مجنون و دیوانہ یا بے شعور و نابالغ نہ ہو۔ رہن شرعاً خرید و فروخت کی طرح جائز ہے کیونکہ (چند استثنائی صورتوں کے علاوہ) ہر وہ شے جس کی بیع جائز ہے اس کو رہن رکھنا بھی جائز ہے۔ رہن کا معاملہ کرنا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ مگر آج کل اس معاہدے میں بھی نقائص و مفاسد آگئے ہیں اورصدیوں سے انسانی معاشرے پر دیگر مظالم کے ساتھ یہ بھی مسلّط ہیں۔
گروی رکھی گئی چیز سے دائن (قرض دینے والے) نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا مثلاً زمین سے فصل غلہ، باغ سے پھل وغیرہ کچھ نہیں لیا۔ مکان، دکان، پلاٹ وغیرہ میں رہائش یا کاروبار یا کرایہ وغیرہ کا فائدہ نہیں اٹھایا، تو جب قرضدار قرض ادا کرے تو گروی رکھی چیز اس کو واپس کردی جائے۔
اگر گروی رکھی چیز سے دائن نے مالی فائدہ اٹھایا ہے تو جتنا فائدہ اٹھایا ہے، قرض دی گئی رقم سے اُسے منہا کردیا جائے، گویا قرض دینے والے کو اس کی اتنی رقم مل گئی۔ جتنی رہ گئی ہے اتنی رقم دیکر دائن گروی رکھی چیز اس کے مالک کو واپس کرے۔ رہن کا یہی طریقہ جائز ہے۔ مثلاً ایک شخص نے اگر ایک لاکھ روپیہ قرض دیا ہے اور اس کے عوض گروی چیز (مکان، دکان اور زمین وغیرہ) سے فائدہ اٹھاتا رہا، تو قرض کی وصولی کے وقت اس فائدہ کو اصل قرض سے منہا کر دے گا۔ اگر منہا نہیں کرتا تو یہ سُود ہے، جو کہ حرام ہے۔ بدقسمتی سے آج کل ہی نہیں صدیوں سے یہی حرام رائج ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتیں مجبوری کی حالت میں قرض لینے پر بطور گارنٹی کوئی شے گروی رکھنے کی ہیں، لیکن اب گروی کی ایک جدید صورت سامنے آئی ہے جس میں لوگ کاروبار کرنے کی خاطر اپنا مکان، پلاٹ، دکان یا زمین وغیرہ گروی رکھ کر قرض لیتے ہیں۔ اس صورت میں ایک فریق (راہن) شئے مَرہونہ سے فائدہ اٹھاتا ہے، جبکہ دوسرا فریق (مُرتَہِن) قرض لی گئی رقم کاروبار میں لگا کر مقررہ مدت تک اچھی خاصی کمائی کر لیتا ہے۔ گویا یہ کاروبار کی ایک نئی شکل ہے۔ کیونکہ اس میں فریقین کسی مجبوری کی بجائے اپنے فائدے کے لیے معاہدہ کرتے ہیں، اور دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اس لیے یہ صورت بھی جائز ہے۔
لہٰذا کوئی شے گروی رکھ کر قرض لینے کی دو صورتیں ہیں: ایک مجبوری اور بےبسی کی صورت میں لیا گیا قرض، اور دوسرا کاروبار کے لیے لیا گیا قرض۔ انہی دوصورتوں کے مطابق ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔ اگر کوئی مجبور اور بےبس اپنی کوئی چیز گروی رکھ کر قرض لے تو اس کے ساتھ پہلی دو صورتوں کے مطابق سلوک ہونا چاہیے، تاکہ ایک مجبور کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اس کے برعکس اگر کوئی کاروبار کرنے کے لیے قرض لیتا ہے تو اس کی گروی شے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس لیے معاہدہ طے کرتے وقت ہی ان سب باتوں کی وضاحت کرلینا ضروری ہے کہ قرض لینے اور گروی رکھنے کی وجہ کیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔