تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کے لیے بینک سے قرض لینے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5785
السلام علیکم! اگر کوئی شخص تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے بینک سے قرض لیتا ہے اور اس کے بدلے بینک گرنٹی مانگتا ہے تو ایسا قرض لینے کا کیا حکم ہے؟

  • سائل: محمد ہارون قریشیمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 19 اگست 2020ء

زمرہ: بینکاری  |  رہن

جواب:

کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز اس شرط پر کہ بائع یا قرض خواہ کے پاس رکھنا کہ جب مشتری یا مقروض قیمت یا قرض ادا کرے گا تو بطور ضمانت رکھی ہوئی شئے اسے واپس مل جائے گی‘ اس معاملے کو رہن یا گروی کہا جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامی نے مشروع امور میں رہن یا گروی کو جائز و مباح قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ.

اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ ﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے۔

البقرة، 2: 283

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ:

ان النبی صلیٰ الله عليه وسلم اشتری طعامًا من يهودی اِلٰی اجل و رهنه دِرعًا من حديد.

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک ادھار غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی ذرع رہن رکھی تھی۔

  1. بخاري، م 256 ه، الصحيح، 2: 729، رقم: 1962، دار ابن کثير اليمامه بيروت، 1407 ه
  2. مسلم، م 261 ه، الصحيح، 3: 1226، رقم: 1603، دار اِحياء التراث العربي بيروت

اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں:

تُوُفّی رسول ﷲ صلیٰ الله عليه وسلم و درعه مرهونة عند يهودی بثلاثين صاعًا من شعير.

رسول ﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی ذرع ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جَو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔

  1. بخاری ، الصحيح ، 3:1068، رقم: 2759
  2. احمد بن حنبل، م 241 ه، المسند، 1: 361، رقم: 3409، مؤسسة قرطبة مصر

درج بالا آیت و روایات سے واضح ہوا کہ قرض یا بیع و شرا کے معاملے میں گروی کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے۔

مسئلہ مسؤولہ میں بھی قرض دیتے ہوئے بینک کا ضمانت کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے، اور لازم ہے کہ یہ قرضِ حسنہ ہو‘ سودی قرض نہ ہو۔ سود لینا اور دینا مطلقاً حرام ہے؛ البتہ مجبور و محتاج کے لیے اس کی گنجائش ہے۔ ”یَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ اَلاِسْتِقْرَاضُ بِالْرِبْحِ“ (الاشباہ) شرعاً محتاج اس شخص کو کہا جائے گا جو کمانے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اسے بغیر سود کے کہیں سے قرض بھی نہ مل رہا ہو کہ وہ اس سے اپنا گزر بسر کرسکے۔ ایسی صورت میں سودی قرض لینا جائز ہوگا اور قرض لینے والا گنہگا ر نہ ہوگا۔ سائل کا معاملہ کیونکہ محتاجی والا نہیں ہے اور نا اسے درپیش ضرورت ایسی ہے کہ جس کے لیے سودی قرض کا جواز بنتا ہو، اس لیے سائل کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ایسے بینک یا ادارے سے قرض لے جو بلاسود قرض فراہم کر رہا ہو۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری