کیا ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں؟


سوال نمبر:3202

السلام علیکم! میرے شوہر اہل حدیث مسلک کے ماننے والے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تین دفعہ طلاق کا لفظ کہنے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔

تقریباً سات ماہ قبل شدید لڑائی کے دوران انہوں نے کہا کہ اگر تم اپنے بہنوئی کے ہاں گئی تو تمہیں طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔ اس بات کے چار ماہ بعد مجھے اپنے بہنوئی کے گھر جانا پڑا۔ میں نے گمان کیا کہ تین طلاقیں ہو چکی ہیں۔ اس لئے میں نے عدت بھی مکمل کر لی۔ وہ مجھ سے متفق نہ ہونے کے باوجود دوسری جگہ منتقل ہوگئے، حالانکہ میرے بہنوئی کے گھر جانے سے قبل ہی انہوں نے شرط بھی واپس لے لی تھی۔ فروری میں انہوں نے رابطہ کیا اور کہا کہ صرف ایک طلاق ہوئی ہے، کیونکہ انکی نیت ایک طلاق کی ہی تھی اور ان کے بقول ایک ساتھ تین طلاقیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ میں بھی واپس جانا چاہتی ہوں۔ براہِ مہربانی اس مسئلےکےحل سے مطلع فرمائیں۔

  • سائل: راحیلہ سہیلمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 جولائی 2014ء

زمرہ: تعلیق طلاق  |  طلاق بائن  |  طلاق  |  طلاق مغلظہ(ثلاثہ)

جواب:

اگر آپ کا شوہر اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حلف اُٹھاتا ہے کہ اس کی نیت و ارادہ ایک ہی طلاق کا تھا مگر اس نے یہ الفاظ تاکیداً تین مرتبہ بولے تھے تو عنداللہ ایک ہی طلاق ہو گی، مگر قضاعا اسے تین ہی شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ ایسے معاملات میں اکثر تاکید نہیں بلکہ تاسیس ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ حلفاً کہتے ہیں کہ ایک کی نیت و ارادہ تھا تو عدت کے دوران رجوع ہو سکتا تھا۔ مگر اب تو عدت گزر چکی ہے، تو نکاح دوبارہ ہوگا۔ ایک ساتھ اگر تین طلاقیں، تین کی نیت سے دی جائیں تو تین ہی ہوتی ہیں۔ طلاق کو مشروط کر کے شرط واپس نہیں لی جا سکتی۔ ۔خاوند کے منع کرنے پر آپ بہنوئی کے گھر نہیں جاسکتی تھیں۔ کہیں بھی جانا ہو تو خاوندکے ساتھ جائیں۔ ورنہ خاوند کی اجازت ضروری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی