’’جو صرف اللہ چاہے وہی ہوتا ہے‘‘ اس حدیثِ پاک کا مفہوم کیا ہے؟


سوال نمبر:3111
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ (جو صرف اللہ چاہے وہی ہوتا ہے) مفہوم حدیث : ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں وہی ہو گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا تم ایسا کہو، جو اکیلا اللہ چاہے وہی ہو گا۔ مسند احمد، حدیث 1839، جلد 1، صفحہ 214، درجہ صحیحہ، راوی:‌ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، ناشر : موسسا قرطبہ، قاہرہ یہ مجھے ایک میسج موصول ہوا تھا جس کی وضاحت درکار ہے کیا یہ حدیث بحوالہ صحیح ہے۔

  • سائل: محمد فرحان صدیقیمقام: کراچی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 09 جولائی 2014ء

زمرہ: توحید

جواب:

جس ایک روایت کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے یہ ایک مجمل روایت ہے یعنی اس میں اختصار پایا جاتا ہے۔لہذا صرف اسی روایت کو لے کر عقیدے کی بنیاد نہیں رکھ دی جائے گی کیونکہ اس کی وضاحت دیگر روایات میں پائی جاتی ہے۔جو بحوالہ درج ذیل ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم مَا شَائَ االله وَشِئْتَ فَقَالَ لَه النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم أَجَعَلْتَنِي وَالله عَدْلًا بَلْ مَا شَائَ الله وَحْدَحه

احمد بن حنبل، المسند، 1: 214، رقم: 1839، موسسۃ قرطبۃ، مصر

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جو اﷲ چاہے اور آپ چاہیں۔حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کیا تو مجھے اور اﷲ کو برابر کر رہا ہے ؟ یوں کہو جو اکیلے اﷲ نے چاہا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا حَلَفَ أَحَدُکُمْ فَلَا یَقُلْ مَا شَائَ اللہُ وَشِئْتَ وَلَکِنْ لِیَقُلْ مَا شَائَ اللہُ ثُمَّ شِئْتَ

ابن ماجه، السنن، 1: 684، رقم: 2117، دار الفکر بیروت

عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی قسم کھائے تو یوں نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔

عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ رَأَی فِي النَّوْمِ أَنَّه لَقِيَ رَجُلًا مِنْ أَهلِ الْکِتَابِ فَقَالَ نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّکُمْ تُشْرِکُونَ تَقُولُونَ مَا شَائَ اللہُ وَشَائَ مُحَمَّدٌ وَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ أَمَا وَاللہِ إِنْ کُنْتُ لَأَعْرِفُها لَکُمْ قُولُوا مَا شَائَ اللہُ ثُمَّ شَائَ مُحَمَّدٌ

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 685، رقم: 2118

  2. دارمي، السنن، 2: 382، رقم: 2499، دار الکتاب العربي بیروت

حذیفہ بن الیمان رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ایک مسلمان شخص نے خواب میں ایک کتابی (یہودی) سے ملاقات کی جس نے یہ کہا تم بہت اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو اور یہ نہ کہو جو اللہ نے چاہا اور محمد نے چاہا۔ اس مسلمان نے یہ خواب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیان کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سنو! بخدا: بے شک میں اس بات کو تمہارے حق میں سمجھتا تھا (اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن یہودی کا منہ بند کرنے کے لیے) یوں کہو جو اﷲ چاہے پھر محمد چاہیں۔

عَنْ قُتَیْلَۃَ بِنْتِ صَیْفِيٍّ الْجُهیْنِیَّۃِ قَالَتْ أَتَی حَبْرٌ مِنْ الْأَحْبَارِ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیک وسلم فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّکُمْ تُشْرِکُونَ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَمَا ذَاکَ قَالَ تَقُولُونَ إِذَا حَلَفْتُمْ وَالْکَعْبَۃِ قَالَتْ فَأَمْهلَ رَسُولُ اللہِ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شَیْئًا ثُمَّ قَالَ إِنَّه قَدْ قَالَ فَمَنْ حَلَفَ فَلْیَحْلِفْ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ یَا مُحَمَّدُ نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّکُمْ تَجْعَلُونَ لِلّٰه نِدًّا قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَمَا ذَاکَ قَالَ تَقُولُونَ مَا شَائَ اللہُ وَشِئْتَ قَالَ فَأَمْهلَ رَسُولُ اللہِ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شَیْئًا ثُمَّ قَالَ إِنَّه قَدْ قَالَ فَمَنْ قَالَ مَا شَائَ اللہُ فَلْیَفْصِلْ بَیْنَهمَا ثُمَّ شِئْتَ

أحمد بن حنبل، المسند، 6: 371، رقم: 27138

حضرت قُتَیْلَہ بنت صیفی جُہینْہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کا ایک بڑا عالم بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ (میں اور شرک؟ ) وہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم لوگ قسم اٹھاتے وقت بولتے ہو ’کعبہ کی قسم‘ کھاتی ہیں: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے۔ لہذا جو (مسلمان) قسم اٹھائے ’رب کعبہ‘ کی اٹھائے پھر یہودی عالم بولا اے محمد صلی اﷲ علیک وسلم تم بہت اچھے لوگ ہواگر اﷲ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔آپ نے فرمایا: سبحان اﷲ وہ کیا؟ (جس میں مجھے تو شرک نظر نہیں آیا اور تجھ بے ایمان کو آ گیا) کہنے لگا تم (مسلمان) کہتے ہو جو اﷲ چاہے اور حضور آپ چاہیں۔اس پر آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ اس یہودی نے یہ کہا ہے۔اب جو کہے ماشاء اﷲ دونوں میں فاصلہ رکھ کر کہے پھر آپ چاہیں۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اﷲ عنہ کی روایت کے مطابق تو یہ ایک مسلمان شخص کا خواب ہے جو اس نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بار گاہ میں پیش کیا۔اور حضرت قُتَیْلَہ بنت صیفی جُہنْیہ رضی اﷲ عنہا کی روایت میں خواب کا ذکر نہیں ہے۔ بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام کا یہ معمول تھا کہ وہ ’’مَا شَائَ اﷲُ وَشِئْتَ‘‘  کہتے تھے۔لیکن آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع نہیں فرمایا۔ سوچنے کی بات ہے معاذ اﷲ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کرام کو شرک نظر نہیں آیا؟ لیکن اس یہودی کو آ گیا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودی کو سوال کرنے دیا اور اس کے اس سوال پر حیران ہوئے کہ وہ کیسے شرک ثابت کر رہاہے؟ لہذا معلوم ہوا یہ یہودیوں کا طریقہ ہے بات بات پہ شرک نکالنا۔

مزید وضاحت کے لیے پروفیسر ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری کی کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ کا مطالعہ کریں۔

کتاب التوحید (جلد اول)

کتاب التوحید (جلد دوم)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی