جواب:
اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، فرمایا گیا :
لَآ اِکْرَاهَ فِيْ الدِّيْنِ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
البقره، 2 : 256
اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo‘‘
الممتحنة، 60 : 8
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے :
ألاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أو انْتَقَصَهُ أوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أوْ أخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
أبو داود، السنن، کتاب الخراج، باب فی تشعير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3 : 108، رقم : 3052
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :
اِنَّهُمْ کَانُوْا لأصحاب مکرمين، فإنی أحب أن أکافئهم.
’’یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 6 : 518، رقم : 9125
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
أنا أحق من وفی بالذمة.
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
ابن أبی شيبة، المصنف 5 : 408، رقم : 2745
اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اقلیتوں کی جان کی حرمت کے متعلق الشعبی کا قول ہے۔
دية اليهودی والنصرانی و کل ذمی مثل دية المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی مثل ہے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 10 : 97، 98
لہٰذا اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔