جواب:
نماز جمعہ کتنی آبادی ہو تو فرض ہوتی ہے ؟ تفصیل درج ذیل ہے :
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي رضي اﷲ عنه لاجمعة ولاتشریق الا في مصر جامع.
’’حضرت ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا نماز جمعہ وعیدین جامع مصر (شہر) میں ہی جائز ہے‘‘۔
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي لاجمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا أصحی الا في مصر جامع أو مدینة عظیمة.
’’ابوعبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ، نماز عیدین و تشریق صرف جامع مصر میں جائز ہے یا بڑے شہر میں‘‘۔
ابن ابي شیبۃ، 1: 439، رقم: 5059
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
’’مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
حصفکي، الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت
عند أبي یوسف رحمه اﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
’’امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ
لہٰذا آپ کے گاؤں میں اگر عاقل بالغ مردوں کی تعداد اتنی ہے کہ وہ سب آجائیں تو بڑی مسجد میں نہیں سما سکیں گے خواہ وہ سب مسجد میں نہیں آتے تو پھر بھی آپ جمعہ کی نماز اپنے گاؤں میں ہی ادا کر سکتے ہیں۔ کوشش کریں سو سے ڈیڑھ سو افرد تو مسجد میں آئیں۔ البتہ آپ لوگ نماز جمعہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد ظہر کے چار فرض ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک امامت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، سید کی غیر سید کی امامت میں نماز ہو جاتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔