جواب:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالی کا دیدار کیا۔
قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت کا ہے۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُo
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے‘‘۔
الانعام، 6: 103
امام رازی رحمہ اﷲ تعالٰی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار.
’’آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔‘‘
فخر الدين رازی ، التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت
المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.
’’دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا، ایک جنس، جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ادراک کی نفی سے اﷲ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔‘‘
رازی، التفسير الکبير، 13: 104
امام قرطبی فرماتے ہیں:
الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة.
’’ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اﷲ کا دیکھنا ثابت ہے‘‘۔
قرطبی، الجامع لأحکام القران، 7: 54 ، دار الشعيب القاهره
خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیت سے اور اسے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے قول سے، دیدار الٰہی کی نفی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی۔ آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے، احاطہ کرنا اور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دنیا میں بھی اﷲ کو دیکھ سکتی ہیں اور یقینا وہ بعض آنکھیں محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہیں۔
علامہ قرطبی مزید لکھتے ہیں:
عبد اﷲ بن الحارث اجتمع ابن عباس و أبی ابن کعب فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال.
’’عبد اﷲ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کے لئے کلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت ہے۔ اس پر حضرت کعب نے اﷲ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے‘‘۔
قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
امام عبدالرزاق نے بیان کیا:
أن الحسن کان يحلف باﷲ لقد رأی محمد ربه.
’’حسن بصری اﷲ کی قسم اٹھا کر کہتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘۔
مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
هل رأی محمد ربه؟ فقال نعم.
’’کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا ہاں‘‘۔
حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
بعينه رآه رآه حتی انقطع نفسه.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اﷲ کو دیکھا۔ دیکھا، یہاں تک کہ ان کا سانس بند ہو گیا۔‘‘
یہی امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے۔ یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، عکرمہ، ربیع اور حسن کا مذہب ہے۔
قرطبی ، الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56
نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج، ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس لئے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی۔
قرآن نے اﷲ کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اﷲ کا احاطہ نہیں کرتیں۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود، اس کی نظر محدود، اﷲ غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔